میں تنہائی پہنتا ہوں
اُداسی کے اُجاڑ آنگن میں چنتا ہوں
کٹھن محرومیوں کے زرد پتوں کو
مری آنکھوں میں جگراتے بھرے ہیں ایک مدت سے
مرے ہونٹوں پہ چسپاں ہیں چٹختی ہچکیاں
چہرے پہ کھلتی کھیلتی، دُکھتی خراشیں ہیں
میں اپنی ذات میں اُجڑے ہوئے گاؤں کا میلہ ہوں
مرے یارو ۔ ۔ ۔ !
تمہارے ساتھ رہ کر بھی اکیلا ہوں!
مری سنگت میں مت بیٹھو ۔ ۔ ۔
تمہیں تو خود سنورنا ہے
تمہاری خواہشوں کے بام و در پہ روشنی کے پھول کھلنا ہے
تمہیں لکھنا ہے ۔ ۔ ۔ اپنی سانس کی گرمی سے
نیندوں کا سفر نامہ
مری سنگت میں مت بیٹھو ۔ ۔
کہ میں پتھر کا محبس ہوں
کہ میں محرومیوں کے شہر کا باسی
مری قسمت اُداسی
کم لباسی،، نا شناسی ہے!!
مری سنگت میں مت بیٹھو
مجھے ملنے سے کتراؤ
خود اپنے دل کو سمجھاؤ
مرے نزدیک مت آؤ!!
میرے دل میں اندھیرا ہے!
اندھیرا ’’ صرف میرا ہے