آج شام سے دل اداس ہے۔۔اداس ہے ڈیپرس نہیں۔۔اداسی میں انسان موم ہوجاتا تو وہ کچھ تخلیق کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ تخلیق کار کی بہت اہمیت ہوتی ہے۔ لوگ اسے بڑا آدمی مانتے ہیں۔ اس نے بھی تو تخلیق کی ہے۔ پوری ایک کائنات ۔ وہ کتنا بڑا ہے؟
پتا نہیں کیوں۔ مجھے لگتا ہے اللہ سے تعلق عبادتوں کے ساتھ نہیں بنتا۔۔۔عبادتوں کے ساتھ بنایا گیا تعلق ایک آفس میں کام کرنے والے انسان اور باس جیسا ہوتا ہے۔۔جس میں آپ حکم بجالاتے ہیں۔۔۔خوش کرنے کیلئے اوور ٹائم لگاتے ہیں۔۔۔
سیکنڈ ایئر میں تھا تو ڈائری میں ایک تحریر لکھی تھی ۔۔اللہ جی کے نام۔۔گلے شکوے کئے تھے۔۔
یاد نہیں کیوں اور کیسے ذہن میں بہت چھوٹی عمر سے ایک چیز بیٹھ گئی تھی کہ وہ بہت بڑا ہے۔۔۔اتنا بڑا کہ اس کے ساتھ مقابلہ ہی نہیں۔۔۔
اب سوچتا ہوں تو خیال آتا ہے شائد ٹی وی پر چلنے والی نیشنل جیوگرافک کی دستاویزی فلمیں۔۔ جنگلی حیات اور کہکشاہوں کی کہانیاں۔۔بس وہیں سے ایک بہت بڑی تصوہر بن گئی تھی ۔۔گرمیوں کی رات کو چھت پر اپنی چارپائی پر لیٹ کر دیر تک آسمان کو دیکھنے رینا اور سوچنا اسکے پیچھے کیا ہے؟ ۔۔اور پھر تھک ہار کر کسی نتیجہ پر پہنچے بغیر سو جانا۔۔۔۔
چوتھی کلاس کی بات ہے کہ رزلٹ سے ایک دن پہلے دعا کیلئے ہاتھ اٹھائے تو خیال کوندا ۔ اب دعا کا کیا فائدہ؟ رزلٹ تو بن چکا۔۔۔
لیکن وہ جو رب کا خاکہ نیشنل جیوگرافک کی دستاویزی فلموں نے بنا رکھا تھا وہ بہت بڑا تھا۔۔وہ تو ہر چیز پر قادر ہے اس کیلئے کیا کام ناممکن۔۔۔اور پھر یقینا دعا قبول ہوگئی۔ نتیجہ بدل گیا۔۔اور میرا یقین بھی۔۔۔
ابا جی کافی حلیم طبیعت کے مالک ہیں۔ ایک طالب علم نے کسی کام کیلئے سفارش کروائی۔ مجھے لگا ان کو بہت ناگوار گزرا ہے۔ جو کام خود بات کرنے سے ہوسکتا ہے اس کیلئے سہارا کیسا ؟
مجھے بھی اچھا نہیں لگتا جب کوئی کسی کی سفارش لیکر آتا ہے۔ میں تو انسان ہوں۔۔محدود اختیار والا ۔اور وہ تو لامحدود اختیار کا مالک۔۔ بیوروکریسی والا تصور بھلا اس کے ساتھ کیسا؟
ایک فلم میں ایک بادشاہ کے سامنے دو قیدی لائے جاتے ہیں۔۔۔جس کو پھانسی دینی تھی اس کی کسی بات پر خوش ہوکر معاف کردیتا ہے اور جس کو قید میں بھیجنا تھا اس کی گردن اڑا دیتا ہے۔
بے نیازی کیا ہوتی ہے؟ رب ہمارا بڑا بے نیاز ہے۔۔لیکن اسے کسی کا بےنیاز ہونا پسند نہیں۔۔جو بننے کی کوشش کرتا ہے ۔۔اسے پر فتوی لگا دیتا ہے۔۔گمراہی کا۔۔
خود جس کو چاہے گناہ سے اٹھا کر راستے پر ڈال دے ۔جس کو چایے مسجد سے اٹھا کر مےخانے پہنچا دے۔۔۔
یہ بے نیازی اس پر سوٹ بھی تو کرتی ہے۔۔
فائنل ایئر کے امتحان سے چند ماہ پہلے ایک کمپیوٹر نے مقروض کردیا۔ جب راستے سارے بند دکھائی دئیے تو ایک دن دعا کے دوران دو آنسو چھلک گئے۔۔ہوسٹل سے باہر نکلا تو ایک ٹیوشن پڑھانے کی آفر پہنچ چکی تھی۔۔ اس دن سمجھ لگی آنسو اتنے انمول کیوں ہوا کرتے ہیں۔۔
رب سے تعلق بےتکلفی والا ہو۔ بے تکلف دوستوں جیسا۔۔۔ایسا بے تکلف دوست جس کے پاس آپکے سب راز موجود ہوں۔جس سے آپ اپنی اچھی بری سب باتیں شیئر کرسکیں۔۔
ہوسٹل میں ایک بار وی سی آر لیکر گئے۔۔بڑی دعائیں کیں۔ پکڑے نہ جائیں۔۔۔تجسس کا گھوڑا مون لائٹ سینما لے گیا۔۔۔تو ہونٹوں پر دعائیں تھیں ۔ہمدرد دوست روکا نہیں کرتا۔۔۔بس وہ لوہے کے گرم ہونے کا انتظار کیا کرتا ہے۔ ایک چوٹ لگا کر اس کو سیدھا کردیتا ہے۔۔کبھی کبھی چوٹ کی بھی ضرورت نہیں پڑتی۔۔بس ایسے ہی موم کی گڑیا بنا کر اس کا منہ موڑ دیتا ہے۔۔۔۔
میاں صاحب کے خاندانی ملازم نے چوری کی۔چند دن بعد اسکو کام پر دیکھا تو پوچھا۔میاں صاحب یہ یہاں؟ بولے اسکو غلطی کا احساس ہوگیا تھا۔۔ایک زمیندار کا ظرف یہ ہے تو اسکا ظرف کتنا بڑا ہوگا؟
اٹاروی صاحب کو اللہ کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔کسی نے پوچھا ۔کوئی ایک دعا بتا دیں۔جو میرے سارے کام کردے۔۔بولے لاحول ولاقوۃ الاباللہ پڑھا کرو۔
نہ کامیابیوں کا سہرا میرے سر نہ ناکامیوں سے بچنے کی ہمت۔۔جب گیند ہی اس کے کورٹ میں رکھنی تو فائول پلے کا ڈر کیسا؟
میرے ذہن میں رب کا تصور ہمیشہ ایک ماں کی صورت بنتا ہے۔ پیار تو باپ بھی کرتا ہے لیکن تھوڑا لاتعلق ۔ مزاج میں کچھ سخت۔ میرٹ پر چلنے والے۔لیکن چاہے کتنی ہی نافرمانی کرلو ۔ پاس جاکر بیٹھ جائو۔ماں کو سب کچھ بھول جاتا ہے۔۔۔
میرا رب بھی ماں جیسا ہے۔۔
میم سین