ملاں پور کا سائیں
مصنف: محمد ظفر اقبال
کسی ڈش کی ریسپی شیئر کی جائے تو اس کے اجزا اور اجزائے ترکیبی پر چاہے جتنی بھی بحث کرلی جائے ۔ڈش کا ذائقہ، چکھنے کے بعد ہی معلوم ہوتا ہے۔کبھی کبھی کسی ڈش کے اجزا بہت سادہ سے ہوتے ہیں لیکن بنانے کی ترکیب ایسی ہوتی ہے کہ بندہ انگلیاں چاٹتا رہ جاتا ہے۔
ملاں پور کا سائیں پر لکھنے بیٹھا تو پہلا خیال یہی آیا ہے۔۔۔ناول میں نیا کیا ہے؟ کہانی میں کیا خاص بات ہے؟ ایک سادہ سے گھر میں جنم لینے والی سادہ سی کہانی لیکن مصنف نے جس ریسیپی سے گزارا ہے وہ اتنے مزے کی ہے کہ کتاب ختم کرکے بھی ذائقہ زبان سے نہیں اترتا۔ ناول کیا ہے ایلس ان ونڈر لینڈ کی بھول بھلیاں ہیں جن میں ایک بار قاری داخل ہوجاتا ہے تو پھر خبر ہی نہیں ہوتی کہ کتاب کب شروع کی اور کب ختم ہوگئی۔۔۔
میرے ہی علاقے ٹوبہ ٹیک سنگھ رجانہ کمالیہ مامونکانجن کوٹاں کے ارد گرد پھیلے علاقے میں ایک کہانی کو بکھیر کر بہت سے اتار چڑھائو سے گزار کر اسے انجام تک پہنچایا ہے۔۔۔سیکھنے والوں کیلئے بہت کچھ اور انداز تحریر کی لذت محسوس کرنے کیلئے ذائقہ بہت۔۔
ہماری دیہی زندگی کی عکاسی جو ہماری فلموں میں کی جاتی ہے ۔اس پر اگر بات کروں تو کوا کاٹے۔۔۔
لیکن ڈراموں یا ناولوں میں دیہات کی جس زندگی کا ذکر کیا جاتا ہے وہ شہرزدہ ہوتے ہیں۔۔وہ جو کچے گھڑے کی باتیں، ساگ لسی اور مکھن کے ذائقے ، وہ جو رہن سہن کی سادگی، چھوٹے چھوٹے مسائل، وہ سادہ لوحی کی داستانیں۔۔ وہ آجکل کے دیہاتوں میں کہاں ملتی ہیں۔۔۔۔لیکن یہ اس ناول کا خاصہ ہے کہ مصنف نے ناول میں ہمیں اصل دیہی زندگی سے ملوایا ہے۔۔۔
تو بس لاک ڈائون میں اگر پڑھنے کی روٹین بن گئی ہے تو پھر ملاں پور کے سائیں کو بھی آنے والے دنوں میں پڑھنے والی کتابوں میں سرفہرست رکھ لیں۔۔۔
کچھ لکھاری ایسے ہوتے ہیں جو لکھتے ہیں اور لکھتے لکھتے بہت اچھا لکھنا شروع کردیتے ہیں۔۔۔لیکن کچھ لوگوں کو لکھنے کا ہنر قدرت کی طرف سے انعام میں ملا ہوتا ہے ہے۔۔ظفر اقبال بھی ان لکھنے والوں میں سے ہیں۔۔جو لکھتے ہیں تو پھر قلم ایسے نقش ونگار بناتا ہے کہ پڑھنے والے ان سے نکلنے والے سحر سے مہبوت کچھ وقت کیلئے زندگی کی دوسری ذمہداریوں کو فراموش کردیتے ہیں۔
ختم نبوت کے پس منظر پر عشق کے قیدی اور پنجاب کی لوگ داستان کو وہ ایک ناول کی شکل دے چکے ہیں۔۔۔
لیکن میرے ایک درخواست ہوگی۔۔۔حاتم طائی اور سرسید کے سفر والی داستانوں کو بھی جلد مکمل کرکے ان کو شائع کروائیں۔ اور فیس بک پر شائع ہونے والی تحریروں کو بھی کسی بلاگ کی شکل میں محفوظ کریں۔۔۔۔ایک تو تحریروں کا ریکارڈ بن جائے گا دوسرا پرانے مضامین کو ڈھونڈنا آسان رہے گا۔۔۔۔
میم سین