تحریر: ڈاکٹرمبشر سلیم
اگر میں اس فراڈکے ایک عینی گواہ سے نہ ملا ہوتا تو شائدمیں بھی اسے کسی افسانہ نگار کی ذہنی اختراع یا کسی مقامی صحافی کی مبالغہ آرائی پر مبنی ایک رپورٹ سمجھتا۔چند سال پہلے وقوع پذیر ہونے والا یہ واقعہ ایک طر ف تو ہماری ہوس پرستی،سادہ لوہی اورزندگی میں شارٹ کٹ مارنے کی عادت کے المیے کی داستان ہے تو دوسری طرف واردات کرنے والے شخص کے تحمل اور پلاننگ کی بھی اعلی مثال ہے
ہوا کچھ یوں کہ گاؤں کے نمبر دار کے ہاں بارات آئی۔ نکاح اور کھانے سے فارغ ہونے کے بعد مہمانوں میں سے ایک بزرگ جن کی سفید داڑھی نے ان کی شخصیت کو خاصا بارعب بنا رکھا تھامسجد کا رخ کیا۔ نماز پڑھنے کے بعد امام صاحب کے ساتھ بیٹھ گئے۔ادھر ادھر کی باتوں کے دوران جب امام صاحب نے مسجد سے منسلک مدرسے کا ذکر کیا،جہاں گاؤں کے بچے حفظ اور ناظرہ کی تعلیم حاصل کررہے تھے تو حاجی صاحب نے مدرسہ دیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ مدرسے کے مثالی انتظام سے متاثر ہو کر حاجی صاحب نےِ رخصت ہوتے وقت جیب سے دس ہزار روپے نکالے اور امام صاحب کے حوالے کرتے ہوئے بولے ایک چھوٹے سے گاؤں میں ایسا شاندار مدرسہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔ نیکیوں کے اس سلسلے میں میرا بھی کچھ حصہ ڈال لیں۔امام صاحب نے شکریے کے ساتھ پیسے وصول کئے اور بہت عزت واحترام کے ساتھ الوداع کہا۔
بارات واپس چلی گئی لیکن حاجی صاحب اپنی خوشگوار شخصیت کا طلسم سارے گاؤں والوں پر چھوڑ گئے۔امام صاحب نے حاجی صاحب کی نیکی کا ذکر گاؤں کے ہر فرد کے ساتھ کیا اور ان کیلئے دعاؤ ں کی خصوصی درخواست بھی۔
یہ کوئی ڈیڑھ ماہ بعد کی بات ہے کہ مسجد کے باہر ایک گاڑی آکر رکی اس میں سے حاجی صاحب نکلے اور امام صاحب کا پوچھ کر اندر چلے گئے اور کہنے لگے میں ذرا جلدی میں ہوں اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی خواہش تھی سوچا اس مدرسے سے مناسب جگہ کون سی ہو سکتی ہے اور بیس ہزار روپے حوالے کرتے ہوئے دعاؤں کی درخواست کی۔امام صاحب نے بہت اصرا ر کیا کہ چائے تو پیتے جائیں لیکن حاجی صاحب جتنی جلدی میں آئے اتنی ہی جلدی میں آئندہ آنے کا وعدہ کر کے چلے گئے۔
اس کے بعد تو معمول ہی بن گیا۔ حاجی صاحب کبھی مہینے کبھی دو بعد آتے ، اپنے مشوروں سے مستفید کرتے ، اور کبھی دس ہزار کبھی بیس ہزار کاعطیہ دیتے اور رخصت ہو جاتے۔ گاؤں کے لوگوں کی حاجی صاحب کے ساتھ عقیدت کا یہ عالم بن چکا تھا کہ وہ جب تشریف لاتے تو اپنے سارے کام کاج چھوڑ کر ان کی محفل میں آجاتے۔جب تک حاجی صاحب گاؤں میں رہتے ، اپنی جگہ سے نہ اٹھتے۔ حاجی صاحب بھی ایسے پہنچے ہوئے انسان تھے کہ سوائے نیکیوں کے کوئی بات نہ کرتے ان کی باتوں کا مرکز مدرسہ ہوتا یا فکرِ آخرت۔ہمیشہ مدرسے کی بہتری کے بارے میں فکرمند رہتے۔اس کے علاوہ نہ حاجی صاحب نے کوئی بات کی نہ گاؤں والوں نے کبھی پوچھا۔
لیکن جس دن مدرسے کے نئے کمروں کے لئے پچاس ہزار کا عطیہ دیا ، امام صاحب سے نہ رہا گیا اور بولے حاجی صاحب آ پ پر اللہ کی خاص رحمت ہے ۔جس نے مالی خوشحالی کے ساتھ ساتھ سخاوت کے عظیم جذبے سے بھی آپ کو نوازا ہے۔ آپ کا ذریعہ معاش کیا ہے؟حاجی صاحب مسکرائے اور بولے اللہ کا بڑا کرم ہے، تینوں بیٹے باہر رہتے ہیں ، ویزے بھیج دیتے ہیں اور میں ان ویزوں کے کمیشن سے گزر بسر کرتا ہوں۔ویزوں کا نام سن کر تو سارے گاؤں کے لوگوں کے چہرے چمک اٹھے، ایک بزرگ بولے جب اللہ نے اتنا فضل کر رکھا ہے تو کبھی اس گاؤں کے نوجوانوں پر بھی شفقت فرما دیں ۔ حاجی صاحب نے سنجیدہ مگر لاتعلقی کے لہجے میں کہا، کوئی اچھے ویزے آ ئے تو آپ کو ضرور بتاؤں گا۔ اس کے بعد حاجی صاحب گاؤں میں تشریف تو کئی بار لائے مگر ویزوں کے بارے میں کوئی بات نہ کی۔ چائے پی ، کبھی کھانا کھایا، ایمان کی حفاظت کی نصیحت اور مدرسے کی بہتری کے لئے مشورے ۔ اور گاؤں والے ان کے منہ سے کچھ اور سننے کو ترستے رہے۔
پھر اس دن فجر کی نماز سے لوگ ابھی فارغ ہی ہوئے تھے کہ حاجی صاحب آگئے۔ مسجد میں ہی بیٹھ گئے اور بولے کچھ ویزے آئے تھے سوچا پہلے آپ لوگوں سے صلاح کر لوں ۔ دس ہزار ریال تنخواہ ہے۔ پندرہ دن بعد روانگی ہے۔ تیس ویزے ہیں اور صرف دو لاکھ کا مل رہا ہے۔ اگر آپ میں سے کوئی خواہش مند ہےتو پیسے جمع کرلیں میں شام کو آؤں گا ۔لوگوں کی تو خوشی کے مارے مت ہی ماری گئی ،
کسی نے نہیں پوچھا ، کام کیا ہے ؟
،کس جگہ ہے؟
کتنے عرصے کیلئے ہے؟
سارا گاؤ ں پیسے جمع کر کے شام ہونے کا انتظار کرتا رہا، شام تو ہوگئی مگر حاجی صاحب نہ آئے۔ سب کے دلوں میں وسوسے، کہیں یہ موقع ہاتھ سے نکل نہ جائے، کہیں حاجی صاحب نے کمیشن زیادہ دیکھ کر کسی اور کو نہ دے دئیے ہوں ۔ کہیں ایسا نہ ہو گیا ہو، کہیں ویسا نہ ہو گیا ہو۔ رات اسی تفاخر میں گذری۔صبح ہوئی اورلوگ فجر کی نماز پڑھ کر ابھی نکل ہی رہے تھے کہ حاجی صاحب آگئے، رات کو غیر حاضری کی معذرت کی اور پیسے اکٹھے کرنے کے بعد فوری پاسپورٹ تیار کرنے کی تاکید کی۔ کہ ویزہ پہنچانا میری ذمہ داری ہے لیکن پاسپورٹ آپ لوگوں کی۔ ایک ہفتے بعد ملنے کا کہہ کر حاجی صاحب رخصت ہو گئے اور گاؤ ں والے آج بھی ان کی واپسی کے منتظر ہیں