تحریر: { رضوان بھٹی }
پاکستان کشمیر سوسائٹی کی کشمیری شہدا کیلئے دعائیہ اور اظہار یکجہتی کی تقریب میں بڑے زور و شور سے وہ جوان نعرے بازی کر رہا تھا اس کے جذبات دیدنی تھے اس کی کشمیر سے محبت دیکھ کر اندازہ ہوتا تھا کہ یہ بندہ اپنے کشمیری بھائیوں کیلئے جان کی بازی لگانے سے بھی دریغ نہیں کرے گا اچانک منتظمین میں سے کسی کی آواز سنائی دی چلیئے جناب کھانا شروع کرتے ہیں محفل کے اختتام کا وقت ہوا چاہتا ہے یہ سنتے ہی جناب نہایت پھرتی سے کھانے کی ٹیبل کی جانب لپکے اور کشمیری بریانی سے اپنی پلیٹ میں ایک چھوٹی کے ٹو بنائی جس کے اوپر لیگ پیس ایک جھنڈے کی مانند لہرا کر اس بات کی تصدیق کر رہا تھا کہ کشمیری بریانی فتح کرنے میں یہ مرد مجاھد کامیاب ہو چکا تھا اب اسکا اگلا ہدف تھا کشمیری چائے، لمبی قطار کے باوجود جناب ہمت نہیں ہارے اور ایک جان لیوا حملہ کر کے مد مخالف سے ایک کشمیری چائے سے لبریز کپ چھیننے میں کامیاب رہے اور فاتحانہ انداز میں ایک خالی ٹیبل کو کارگل سمجھ کر اس پر قبضہ جما کر جنگ میں مصروف ہو گئے اور میں کونے میں کھڑا اس شخص کی ہمت کو داد دینے لگا جو اپنی دانست میں قوم کو سدھارنے کے لئے پچھلے ایک گھنٹے سے اسٹیج پر اپنے جذبات اور پھیپھڑوں کی پوری قوت صرف کر کے صرف یہ سمجھا رہا تھا کہ کیا کشمیر کا نام بس تقاریب میں ہی سنا جائے گا کوششیں کیا صرف تقاریب کی حد تک رہ گئی ہے صرف تقاریب کی حد تک یہ پیار رہ گیا ہے صرف تقاریب کی حد تک یہ جہدوجہد رہ گئی ہے میں نے دور دور تک نظر دوڑائی کہ شاید کوئی ان صاحب کی باتوں سے متاثر شخص نظر میں آ ئے لیکن مجھے باتوں سے زیادہ کھانے سے متاثر لوگ نظر آے کیونکے سب کےسب کھانے میں مصروف نظر آئے آخر کا میں نے بھی کھانے پر حملہ کرنے کی ٹھانی لیکن قربان جاؤں اپنے جوانوں پر مجھے ٹیبل دیکھ کر اس بات کا اندازہ ہوا کہ میرے پاکستانی مجاہدین الحمداللہ مجھ سے پہلے ہی اس حملے میں کامیاب ہو چکے تھے اور مجھے اب مال غنیمت پر ہی اکتفا کرنا تھا بہر حال ایک نصیحت مل چکی تھی کہ آیئندہ کے لئے کے حملہ چاہے کھانے پر کرو یا دشمن پر دیر نہیں کرنی چاہیے کیوں کے صرف باتوں سے پیٹ نہیں بھرتا
تحریر: { رضوان بھٹی }
(جو دیکھتا ہوں وہی بولنے کا عادی ہو ں میں اپنے شہر کا سب سے بڑا فسادی ہوں) (جون ایلیا)