تحریر: کاشفؔ کمال
یوں تو وطن سے محبت ، مٹی سے وفاداری اور اپنے ہم وطنوں کی خدمت کا جذبہ ہر پاکستانی کی رگوں میں دوڑتا ہے لیکن صحرائے کویت میں تلاشِ رزق کیلئے آئے کچھ پاکستانیوں کا جذبہ دیکھ کر حاتم طائی کی روح تڑپ جاتی ہو گی اور یقیناً قبر میں لیٹاحاتم طائی حسرت و یاس سے ا ٓہ و فگاں کر رہا ہو گا کہ کاش وہ بھی اس دورِ خدمتِ خلق میں سانس بھرتا ۔ کھل کے انسانیت کی خدمت کرتا ، پیسہ نچھاور کر کے پینٹ کوٹ اور ٹائی لگا کر اسٹیج کی رونق بنتے ہوئے مختلف پوز بنوا کر فوٹو کھنچواتا اورروحانی تسکین حاصل کرتا ۔ لیکن صد افسوس کہ حاتم طائی کی یہ حسرت پوری نہ ہو سکی ۔ لیکن کویت میں مقیم میری طرح ستر ہزار پاکستانی حاتم طائی کی اس خواہش کا مزہ لوٹ رہے ہیں جو وہ نہ حاصل کر سکا ۔
کویت میں جہاں ستر ہزار پاکستانی اپنے کاروبار ، چھوٹی بڑی ملازمت اور اپنے اپنے کام کاج میں مصروف عمل ہیں وہاں درجن کے قریب احباب کو کمیونٹی کی خدمت کا بخار اتنا شدید ہو گیا ہے کہ ان کی یہ بیماری خطرناک صورت اختیار کر چکی ہے ۔ وہ کسی جگہ پڑھا تھا کہ عرب میں زمانہ جاہلیت میں خاندانوں ، گروپوں یا افراد کی لڑائیاں چھوٹی چھوٹی بات پر ہو جایا کرتی تھیں اور وہ طویل سے طویل ہو جاتیں ۔
حفیظ جالندھری نے اس صورتحال کو کچھ ایسے بیان کیا ہے
‘‘کبھی پانی پینے پلانے پہ جھگڑا ، کبھی گھوڑا آگے دوڑانے پہ جھگڑا’’
اسی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے ہم بھی کسی سے کم نہیں ۔ کبھی فوٹو کھنچوانے پہ جھگڑا ، کبھی اسٹیج پر بیٹھنے بٹھانے پہ جھگڑا ۔
خدمت ِ خلق کے بلند و بانگ دعوے کرنے والوں نے بانی پاکستان کے نواسے کی بھی خوب خدمت کر ڈالی ۔کسی تقریب میں ایک پہلوان نے تو پاکستان میں واقع اپنے دس گیارہ کروڑ روپے مالیت کے گھر کی رجسٹری نواسہ قائداعظم ؒ محمد اسلم جناح کے نام کر دینے کی بڑھک ماری ، پھر واپسی پر گھر جاتے ہوئے گھریلو دبائو کے خطرے کو بھانپتے ہوئے ایک سو اسی کے زاویے سے یوٹرن لیا اور ڈھیٹ انداز سے اس سارے واقعے سے مُکرنے میں ہی عافیت جانی ۔ لیکن پھر بھی اس واقعہ کے بعد صاحب بہادر بہت ہی مطمئن انداز میں رعب اور خاندانی وقار کے ساتھ کمیونٹی کی تقریبات میں خصوصی شرکت فرماتے ہیں۔ان کی اس حرکت سے وہ سیاسی طور پر’’ نونی گروہ‘‘ میں شامل لگتے ہیں ۔
کچھ مذہب کے نام پر چندہ اور دھندہ کر کے کمیونٹی کی خدمت میں مصروف ہیں تو کچھ پوری پارلیمنٹ کو جیب میں لیے پھرتے ہیں ۔ موصوف کہتے ہیں کہ روپیہ ہر مرض کی دوا ہے اس سے ہر چیز خریدی جا سکتی ہے کثیر روپیہ خرچ کر کے صاحب واقعی سب کچھ خرید چکے۔میڈیا ، چھوٹے غلام ، بڑے غلام ، غلام ابنِ غلام ،مسجد اور مولوی وغیرہ لیکن عزت اور عقل نہ خرید سکے ۔ شکر ہے اللہ پاک کا کہ رزق اور عزت و ذلت کا اختیار اللہ نے خود اپنے پاس رکھا ۔ ورنہ موصوف کے درباری تو عزتیں اور شہرتیں تقسیم کرنے کے دعویدار بنے بیٹھے ہیں ۔ ایک صاحب نے تو بڑی مشکل سے یہ کہہ کر جان چھڑوائی کہ آپ کچھ ذیادہ عزت دے رہے ہیں ۔ بات چل نکلی ہے تو چند ایسے پھپھے کٹنے احباب کا ذکر بھی ہو جائے جو ہر قسم کی تقریب کو انتہائی ہوشمندی اور دانشمندی سے رونق بخشتے ہیں ۔ وہ لڑکی والوں کی طرف سے بھی مدعو ہوتے ہیں اور لڑکے والے بھی منہ چوم کر انہیں خوش آمدید کہتے ہیں ۔ اس کی وجہ عزت و احترام نہیں بلکہ شر اور پراپیگنڈا سے بچائو یا حفاظتی تدابیر ہیں ۔ کبھی بھی ایسے احباب کا ویژن اور موقف واضح نہیں رہا ۔ حسینی قافلے ساتھ بھی پائے جاتے ہیں اور یزیدیوں کو بھی ناراض نہیں کرتے ۔ سننے اور مشاہدے میں آیا ہے کہ یہاں غائیبانہ نماز جنازہ کا رواج ایک مکمل ایونٹ کی شکل اختیار کر چکا ہے ۔ جن مولبیوں نے جنازہ کی چند دعائیں رٹ رکھی ہیں وہ وضو کے ساتھ ساتھ ایک آدھ فوٹو گرافر کا بھی اہتمام کرکے جنازہ گاہ پہنچتے ہیں تاکہ دوران نماز مختلف پوز مار ے جائیں اور فوٹو میں مذہبی ٹچ بھی ہو جائے ۔ اس موقع پر سوگواران سے زیادہ یہ مذہبی ، سیاسی و سماجی شعبدہ باز زیادہ سوگوار نظر آتے ہیں ۔ اس کے علاوہ سود کے خلاف لیکچرز دینے اور ہر وقت استغفراللہ ، استغفراللہ کرنے والے پارسا چند سال قبل کویت کے ڈبل شاہ کی ڈبلنگ کا شکار بھی ہوئے ۔ اس موقع پر مجھے اپنا ہی ایک شعر یا د آ گیا کہ
‘‘سبھی قبلے سے منہ موڑے ہوئے ہیں مگر سجدے پہ سجدہ ہو رہا ہے’’
سیاسی دھڑوں کی اگر بات کی جائے تو ـ’’ جہٹرا بھنو اوھو ای لال اے‘‘ تمام سیاسی جماعتوں کے چھوٹے موٹے کارکن بھی اپنے ذاتی تعلقات شریف برادران و آل اولاد ، زندہ و مردہ بھٹو ، زرداری ، الطاف حسین اور عمران خان سے کم ماننے کو تیار ہی نہیں ۔ مہینے بعد گھر کا خرچ پاکستان بھیجنے پر گھر والوں سے لڑنے والے یہ محب وطن سیاسی کارکنان ہر مہینے باقاعدگی سے اپنے اپنے قائدین کی گڈ بک میں آنے کیلئے بڑھ چڑھ کر تعاون و چڑھاوے چڑھاتے نظر آتے ہیں تاکہ ملک و قوم کی ٹکا کر خدمت کی جا سکے ۔
مندرجہ بالا حالات و واقعات بیان کرنے کا مقصد ہرگز کسی کی تذلیل کرنا نہیں ، اگر کوئی خود ایسا محسوس کرے تو بے حد خوشی محسوس ہو گی کیونکہ اصل مقصد محسوس کروانا ہی تو ہے ۔ جذبہ حب الوطنی اور خدمت خلق کی خواہش کوئی بُرا عمل نہیں ، یہ تو عین عبادت ہے
اور ہم لوگ عبادت میں بھی منافقت والی ملاوٹ کر کے اللہ پاک سے اس کا صلہ یا ثمرات لینے کی توقع کر رہے ہوتے ہیں ۔ اور اگربھول چوک کر کوئی نیکی یا کسی مجبور کی خدمت ہو ہی جائے تو اس کی تشہیر کر کے ہم اپنا سارا ثواب اپنے ہی ہاتھوں زائل کر دیتے ہیں ۔ خدمت خلق اور محب الوطنی کی موجودہ دور میں پاکستان کے عبدالستار ایدھی سے بڑھ کر کوئی مثال موجود نہیں ۔
دعا گو ہوں کہ اللہ کریم ہمیں ہمارے نیک مقاصد میں کامیابی ، ویژن میں خلوص اور نیتوں کو صاف رکھنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین