اپنی زندگی کے 32 سالہ دور میں نت نئےاور بھانت بھانت کے ہوٹلوں سے طرح طرح کے( کنگ پراٹھا) (لاھوری پراٹھا) (مکھنی پراٹھا) جیسے نامی گرامی پراٹھے کھائے لیکن کہیں وہ مہک وہ ذائقہ وہ لطف ولذت محسوس نہیں ہوئی جو کبھی میں اسکول میں(تفریح ٹائم) (کھانے کی چھٹی کے وقت) پراٹھا کھاتے ہوۓ محسوس کرتا تھا کچھ زیادہ تکلف بھی نہیں کیا جاتا تھا سادہ پراٹھاعموما رات کے بچے ہوۓ سالن کے ساتھ تو کبھی اچار کے ساتھ اور اگر کبھی عیاشی مقصود ہوتی تو فرائی انڈے کے ساتھ اخبار میں لپٹا اور پلاسٹک کے شاپر بیگ میں ڈال کے دیا گیا وہ ٹھنڈا اور بے جان پراٹھا بغیر چاۓ کے جب حلق سے اترتا تو کسی بھی بڑے ہوٹل کے بہترین کھانے سے زیادہ لذیز اور مزیدارہوتا۔
میری ہمیشہ جستجو رہی کے مجھے کوئی اس من سلویٰ پراٹھے کی ترکیب اور وہ اجزا بتا دے جو اسے بنانے میں درکار ہوتے ہیں لیکن میری تمام جستجو اور کوششیں بےسود رہیں آخر کار ایک دن تنگ آ کر میں نے ایک بڑے مشہور ہوٹل کے مالک سے پوچھا جناب بہت مشہور پراٹھے ہیں آپ کے لیکن میں جو ذائقہ اور لذت اسکول میں پراٹھا کھاتے محسوس کرتا تھا آخر وہ ذائقہ اور لذت کہیں کیوں نہیں ملتا؟
جناب نے(مالک) ایسا تسلی بخش جواب دیا کے ایک ہی پل میں میری سمجھ میں یہ بات آ گئی کے میں ہمیشہ ناکام کیوں ہوتا تھا اس ذائقہ کو تلاشنے میں .موصوف کا جواب یہ تھا
(جواب)
رضوان بیٹا اس پراٹھے کیلئے آٹا گھوندتے ہوے ایک ماں کے سچے پیار بھرے دل سے اپنے نور چشم کے حق میں خدا کے حضور بیشمار التجائیں اور صدائیں شامل ہوتی تھیں ایک ماں کی اپنے لال کی خیر و عافیت کیلئے دل کی گہرائیوں سے نکلتی دعائیں اس پراٹھے میں شامل ہوتی تھیں اس میں ایک ماں کے وہ رازو نیاز شامل ہوتے تھے جو وہ اپنے بیٹے کے حق میں چپکے چپکےبھری آنکھوں سے خدا کے ساتھ کرتی تھی اس پراٹھے کے ہر بل پر ماں کے پیار کی گرہ لگی ہوتی تھی اس میں آٹے اور گھی کے علاوہ ماں کی لازوال ممتا خالص پیار اور اسکی اپنے بیٹےسے بے پناہ محبت شامل ہوتی تھی اس پراٹھے میں ماں کی اپنے بیٹے کے لئے صحت اور تندرستی کی دعائیں کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی تھیں رضوان بیٹا ہم کاروباری لوگ یہ لوازمات کہاں سے لائیں ؟
جواب سن کر مجھ پر سکتہ سا طاری تھا لاجواب کر دیا تھا اس کاروباری آدمی نے اس ہوٹل والے کے چند الفاظی طمانچوں نے میرے چودہ طبق روشن کر ڈالے. اور مجھے اپنی اس غلطی کا احساس ہو رہا تھا کے میں واقعی ان خصوصیات کا متلاشی رہاتھا جو اللہ تعالی نے صرف ایک ہی ہستی کو عطا کی ہیں جس کا نام ماں ہے جس کی عظمت میں اسکے قدموں تلے جنت رکھ کر خدا نے یہ واضح پیغام دیا ہے کے دنیا میں اگر بنی آدم کو جنت دینے کا حق ہے تو وہ صرف ماں کے پاس ہے
بات اچھی طرح سمجھ میں آ چکی تھی کے جس کے قدموں میں جنت ہو اس کے ہاتھوں میں من و سلویٰ کاذائقہ ہی ہو گا
کیونکہ
ماں تے آخر ماں ہوندی اے
بارش،تیز ہوا،تے بدل،سب دی اپنی تھاں ہوندی اے
دہپ وی بھانویں چنگی لگے،چھاں تے آخر چھاں ہوندی اے
بہن،بھرا،ابا یا پتر،سارے ای رشتے ودھیا نیں
ساری دنیا گھم کے ویکھی،ماں تے آخر ماں ہوندی اے
ماں تجھے سلام
تحریر:رضوان بھٹی