ساری رات برفباری ہوتی رہی تھی اس لئے زمین پر بچھی برف ابھی نرم تھی. ہر قدم پر اسکے بھاری بوٹ برف کے اندر تک دھنس جاتے تھے.درجہ حرارت منفی بارہ تھا.فضا میں شدید خنکی اور آکسیجن کی کمی کی وجہ سے سانس مشکل سے آتا تھا۔
………………………….
اس عورت کی جلد کی رنگت سیاہ کولتار جیسی تھی, نقاب سے جھانکتی بڑی بڑی سیاہ آنکھوں سے روشنی سی پھوٹتی تھی.موسم گرما کی جھلسا دینے والی دوپہر تھی ,درجہ حرارت پچاس تک پہنچا ہوا تھااور وہ اپنے سامنے کپڑا بچھائےتسبیحاں، عطر،مسواک،قینچی چپلیں رکھے موسم سے بے نیاز بیٹھی تھی.وہ اکلوتی یہاں پر ایسی نہیں تھی جو موسم کی شدت سے بے نیاز تھی، وہاں پر جو لوگ آتے تھے ان کے دلوں میں بھڑکتی آتش عشق اس گرمی کو مات دیتی تھی,زینب بھی ویسی ہی تھی. یہ عشق کی تجلیات تھیں جس نے مکہ کے پہاڑوں کو سیاہ کر ڈالا تھا زینب کو لگتا تھا اس کی جلد بھی اسی تجلی سے سیاہ ہے، رب کے عشق سے.پاس ہی اس کا تین سال کا بیٹا چھوٹے چھوٹے کنکروں سے کھیل رہا تھا. وہ بھی اپنی ماں کی طرح گرمی سے بےنیاز تھا، اس کی مٹی بھی عشق کے خمیر سے گوندھی گئی تھی, اس کی جلد پر بھی رب کی تجلی کا ظہور تھا. ………………………….
وہ سیاہ عبایا پہنے خانہ کعبہ سے چند فٹ دور تیز دھوپ اور گرمی سے بےنیاز سجدے کی حالت میں تھی.سورج کی کرنیں خانہ کعبہ کو اپنی حدت سے بگھو کر سارے احاطے میں پھیلتی مقدس سی لگتی تھیں، گرمی, سردی, بہار ,خزاں وہاں کسی موسم کا احساس کر پانا بہت مشکل ہوتا ہے.فاطمہ اللہ کے گھر کی زمین پر ماتھا ٹکائے جانے کب سے پڑی تھی. وہ کون سی دعا تھی جو اسکے آنسو تھمنے نہیں دے رہی تھی،جو اسے سالوں سے غم اور اضطراب میں مبتلا کئے ہوۓ تھی , وہ دعا نیک اور صالح اولاد کی تھی, وہ رب سے نیک اور صالح اولاد مانگ رہی تھی۔ ……………………………….
وہ دنیا کے تیسرے قطب پر کھڑا تھا،سیاہ چن کی برفوں میں ہمالیہ اور قراقرم کے عظیم سلسلوں کے درمیان کہیں اس کا وجود ایک سیاہ نقطے کی مانند لگ رہا تھا اور اپنی اہمیت کا احساس اپنے ہونے اور نہ ہونے کا فرق اس نقطے کو خوب ہی معلوم تھا.وہاں ہر چیز نور تھی, چاندی سے بادلوں بھرا سفید آسمان،بلند پرنور چاندنی منعکس کرتے پہاڑ, اس کے منہ سے نکلتا سفید روشن دھواں.اس نے ساری ٹھنڈک اور نور کو اپنے وجود کے اندر حلول ہوتا محسوس کیا۔ ……………………………….
آج زینب اپنی ساتھ بیٹھنے والی عورت کو جو کم وبیش یہی چیزیں بیچتی تھی, کافی عرصے سے یہاں اسکے ساتھ تھی، اپنا خواب سنا رہی تھی ۔اس خواب نے اس کے اندر اتنی خوشی بھر دی تھی کہ وہ صبح سے مسکراۓ جا رہی تھی.” میرابیٹا میرا فخر بنے گا،یہ میری جنت کا دروازہ ہے"۔وہ تعبیر بھی خود سے ہی کر رہی تھی۔”خوابوں کی دنیا سے باہر آ جاو زینب،تم خوب جانتی ہو ہم بےوطن،بےگھر ہیں،یہاں غیرقانونی طور پر پڑے ہیں۔ہمارے بچوں کا کوئی مستقبل نہیں اورتم محض ایک خواب دیکھ کر سمجھ رہی ہو تمہارے بیٹے کی تقدیر بدل جائے گی،تمہیں کل مل جاے گا ,آسودگی مل جاے گی”۔دونوں عورتیں عربی زبان میں بات کر رہی تھیں.زینب دل مسوس کر رہ گئی” میں اپنی خوشی سے یہاں غیر قانونی طور پر نہیں رہ رہی, میری رب کے گھر کے سوا کوئی جائےپناہ نہیں میرے بیٹے کا اصل سہارا رب ہے .میں اس سے مایوس نہیں کے وہ اسکو اسکی منزل تک ضرور پہنچائے گا, اسکو اسکی پہچان اور گھرکی آسودگی دونوں ضرور نصیب ہوں گی”. اس وقت رب نے باہر زینب کی مان بھری دعا کو اور اس کے گھر کی زمین کو اپنے آنسووں سے بگھوتی فاطمہ کی دعا کو قبولیت بخش دی تھی۔ …………………………….
مکہ کے پہاڑوں پر رات اتر رہی تھی فاطمہ یہ منظر موو این پک کی تینتیسویں منزل پہ اپنے کمرے سے بخوبی دیکھ سکتی تھی ، ہوٹل ایک جانب سے خانہ کعبہ سے متصل تھا چونکہ اس کا کمرہ خانہ کعبہ کی مخالف سمت میں تھا اس لئے یہاں سے مکہ کے مقدس پہاڑ اور شہر میں بچھی سڑکیں نظر آتی تھیں رات ہوتے ہی سارے شہر میں رنگ برنگی روشنیاں جھلملانے لگی تھیں.اسی ہوٹل میں دوسری منزل پر ناشتے اور کھانے کا انتظام تھا مگر وہ صبح سے بھوکی پیاسی تھی، نیچے کھانا کھانے بھی نہیں گئی ابھی مغرب کی نماز بھی اس نے ہوٹل میں پڑھی تھی.اس کا شوہر ظہر کے بعد سے لاپتہ تھا.کیا کروں وہ اضطراری کیفیت میں سوچ رہی تھی, پولیس میں رپورٹ درج کرواؤں، اس نے ماتھامسلا.وہ کبھی بیٹھتی ,کبھی اٹھتی کبھی کمرے میں چکر لگانے لگتی. رات کی تاریکی پھیلتے ہی اس کے مزید اوسان خطا ہو گئے آنسو اب گال بگھونے لگےاچانک دروازے پر کارڈ ڈیٹیکشن کی آواز سے وہ چونکی ,دوڑ کر دروازے کی طرف گئی سامنے اس کا شوہر کھڑا تھا. اس سے پہلے کے وہ اس سے کچھ پوچھتی اس نے دیکھا اس کے شوہر کے سینے سے ایک سیاہ فام بچہ لپٹا ہوا ہے. وہ اتنی نڈھال تھی کہ کچھ پوچھ نہیں سکی بس سوالیہ نظروں سے عبداللہ کو دیکھا.اس نے بچہ اس کی گودمیں دے دیا بچہ بالکل بوسیدہ کپڑوں میں تھا اسے لگا وہ کافی بھوکا ہے.”اللہ نے ہمیں اپنی زمین سے یہ تحفہ دیا ہے".وہ بستر پر لیٹ کر کمر سیدھی کرنے لگے،”یہ بچہ بے سہارہ ہے یتیم ہے،آج جب میں آب زمزم خرید رہا تھا وہاں اسکی ماں کا انتقال ہو گیا یہ روتا ہوا مجھ سے لپٹ گیا پتہ نہیں کیوں میں خود کو اس سے الگ نہیں کرسکا, میں اسکی پرورش کرنا چاہتا ہوں” وہ آخری بات کہتے ہوے جھجھکے تھے. ” ابھی کاغذی کاروائی ہونی باقی ہے اس لئیے کچھ دن اور ٹھہرنا پڑے گا”. فاطمہ کی سمجھ میں آدھی باتیں آئیں آدھی نہیں, بس جو بات سمجھ میں آئی تھی وہ یہ کہ یہ بچہ اب اسکی ذمہ داری ہے وہ بچے کو خود سے چمٹا کر والہانہ پیار کرنے لگی . …………………………………
وہ شروع ہی سے کمگو تھا, تنہائی پسند ہجوم سے گھبراتا تھا.سکول میں فاطمہ اسمبلی کے دوران وہیں کھڑی رہتی اور بعد میں خود اسے کلاس تک چھوڑ کر آتی اس کی اپنی دنیا تھی کتابوں کی, کھلونوں کی. اس کے دوستوں کی تعداد بہت کم تھی . وہ لوگوں میں کبھی گھل مل نہیں سکا, اسے ہمیشہ لگتا تھا وہ ان سب سے الگ ہے, اس بات نے اسے عجیب سے اضطراب میں مبتلا کر دیا تھا, اس کی پہچان کیا ہے؟ اسکا اصل کہاں ہے؟،اپنے وجود پہ ناز کیونکر ممکن ہو؟۔وہ تب سے زیادہ مضطرب رہنے لگا تھا جب سے عبداللہ نے اس کے حوالے اسکی ماں کا کچھ سامان کیا تھا جو مرتے وقت اس نے چھوڑا تھا. اسکی ماں کا تعلق جنوبی سوڈان میں بالائی نیل کے علاقے سے تھا۔ اس کی ماں کی چھوڑی ہوئی چیزوں میں جو دستاویزات تھیں اس سے پتہ چلتا تھا وہ کچھ عرصہ شمالی سوڈان میں مہاجرین کیمپ میں رہی تھی, وہاں سے وہ کسی کے توسط عمرہ کرنے آئی تھی،وہ دن رات سوچتا کہ اسکا باپ یقینا“ نسلی فسادات میں مارا گیا ہو گا،دوسری طرف فاطمہ اور عبداللہ کے لئیے وہ خدا کی طرف سے دیا گیا ایک مقدس تحفہ تھا جس نے انکی زندگی میں موجود خلا کو پر کیا تھا۔
اٹھارہ سال کی عمر میں اس نے پاک فوج میں بھرتی ہونے کی اجازت مانگی تھی۔ عبداللہ تو سوچ میں پڑ گئے مگر ملک کے حالات جیسے تھے ،فاطمہ کسی طور رضامند نہیں تھیں اور وہ ہر صورت فوج ہی میں بھرتی ہونا چاہتا تھا.“آخر تم اتنی ضد کیوں کر رہے ہو؟“ عبداللہ نے برآمدے کے ٹھنڈے فرش پر اس کے ساتھ بیٹھتے ہوۓ پوچھا تھا، چودهویں کے چاند کی روشنی میں سارا لان جگمگ کر رہا تھا، موتیا کی خوشبو چاروں طرف پھیلی ہوی تھی،“ کیونکہ میں جس چیز کی تلاش میں ہوں وہ مجھے یہیں ملے گی““ اور تم کس چیز کی تلاش میں ہو؟“ وہ حیران ہوے تھے “اپنی پہچان کی، اپنے اصل کی ،جو مجھے سمجھ میں نہیں آتی“ وہ اسکو کچھ دیر دیکھتے رہے“ اور تمہیں کس نے کہا کہ فوج میں بھرتی ہو کر تمہیں یہ پہچان مل جاے گی“ .“میں نے جہاں تک سمجھا ہے ہر مسلمان مجاہد ہے، وہ مجاہد ہی پیدا کیا گیا ہے ظاہری طور پر بھی اور باطنی طور پر بھی“،وہ کچھ دیر خاموش رہا پھر بولا“ یہ جہاد میرے خون میں ہے ،میری فطرت میں مجھے اس سے مت روکئیے“،پھر دونوں نے اسے اجازت دے دی تھی۔ وہ انٹری ٹیسٹ میں امتیازی نمبروں سے پاس ہوا تھا۔ جب وہ امتحان گاہ سے گھر واپس آ رہا تھا تو اسے لگا کہ فاطمہ اور عبداللہ خوش نہیں ہوں گے مگر ان دونوں کی آنکھیں خوشی سے بھیگ گئی تھیں وہ انکا بیٹا تھا انکا فخر۔
وہ فوجی تربیت کے لئیے چلا گیا،فوج میں بھرتی ہونے کے بعدوہ بہت مصروف ہو گیا تھا اس مصروفیت نے اس کے اندر کی بے چینی کو وقتی طور پر کم کر دیا تھا،اس نے یکے بعد دیگرے کئی آپریشنز میں حصہ لیا،سیلاب زدہ علاقوں میں کام کیا،مختلف شہروں میں پوسٹنگز ہوتی رہیں اور وہ زبانیں،لباس،لوگ اور ان کی ثقافت، انکے مزاج کا مطالعہ کرتا رہا۔ یونہی تبادلوں کے دوران اس کے دل میں اپنے وطن کو دیکھنے کی خواہش پیدا ہوی ۔عبدا للہ اسے قطعا اجازت نہیں دے رہے تھے مگر اس کی ضد کے آگے ہار گئے تھے.انہوں نے وہاں کے ایک نیوز رپورٹر سے معاملات طے کئے تھے جس نے گائیڈ کے فرائض سرانجام دینے تھے پر اس کے جانے تک وہ اسے روک لینا چاہتے تھے ،وہاں پہنچنے کے بعد بھی دن میں پانچ چھ دفعہ فون کرتے۔
سلیمان اسے ائیرپورٹ لینے آیا تھا،وہ یہاں شمالی سوڈان میں نیوز رپورٹر تھا ۔اس کا تعلق بھی جنوبی سوڈان سے تھا اس کے ماں باپ بہن بھائی سب مارے جاچکے تھے،اس نے بتایا تھا کیسے اس کے ماں باپ اور خاندان والوں نے مسجد میں پناہ لی مگر پھر بھی قتل کر دئیے گئے، پتہ نہیں وہ کیسے بچ گیا وہ غمزدہ سا مسکرایا تھا،دوسرا ساتھی جو اس سفر میں ان کے ساتھ تھا وہ عیسائی مذہب کا تھا اس کا نام موشیٹ تھا اٹھارہ سال پہلے ایک گمشدہ بے شناخت بچہ تھا اور اب امریکن نیشنل، ان تینوں کی کہانی،ان تینوں کا غم ایک سا تھا۔
سوڈان طویل مدت حالت جنگ میں رہا یہاں تیل کی دریافت بھی خوشحالی نہ لاسکی تھی۔وہاں کے عیسائی مسلمانوں سے شدید نفرت کرتے تھے آخر 2011 میں یہ دو حصوں میں بٹ گیا لیکن جنوبی سوڈان جہاں عیسائی اکثریت میں تھے وہاں کے حالات نہیں سنبھل سکے، وہاں ماشار نے دوبارہ بغاوت کا علم بلند کر دیا،وائٹ آرمی نے ردعمل کے طور پر ان کے گاوں کے گاوں اجاڑ دئیے۔وہاں اب تک نسلی قتل عام جاری تھا وہ موشیٹ کے ساتھ اکوبو، ناصر، جوبا ،مالاکل،دریاے نیل کے بالائی حصے تک گیا۔ وہ درزیدہ نظروں سے ان علاقوں کو دیکھتا رہا جنہوں نے قیامت سے پہلے قیامت کی تکلیف جھیلی تھی۔ وہاں انگشت بددنداں وہاں کے علاقے دیکھتا رہا گاوں کے گاوں اجڑے پڑے تھے ،گلی سڑی لاشیں خشک ہڈیاں بکھری پڑی تھیں۔ فوج جو علاقہ اجاڑتی وہاں کے بچے کھچے لوگ آکر ماشار کے ساتھ مل جاتے اور اس نے خود ٹرک دیکھے جس میں نو عمر لڑکے آکر باغیوں میں شامل ہورہے تھے۔ وہ سارا سارا دن تربیت لیتے یا بھوک کے سبب بپھرے سے خوراک کی تلاش میں پھرتے ،سب کا انحصار زیادہ تر مچھلی مویشی اور شکار پر تھا۔وہ شمالی اور جنوبی علاقوں کے مہاجرین کیمپ بھی گئے۔اپنے لوگوں کی حالت زار آنکھیں نم کئیے دیکھتے رہے.
تین دن بعد اس کی فلائٹ تھی وہ سر جھکائے نیل کے مقدس پانی کے کنارے سلیمان کے ساتھ بیٹھا تھا ،“میں ان سب کے لئے کچھ کرنا چاہتا ہوں“ اگر کچھ کر سکتے ہو تو فی الوقت انکو سب سے پہلے خوراک اور پھر تعلیم کی ضرورت ہے“سلیمان نے اسکے عقب میں غروب ہوتے سورج کو دیکھتے ہوے جواب دیا،وہ گم صم سوچنے لگا، وہ لاشعوری طور پر یہاں ہونے والی جنگ کا موازنہ پاکستان کے علاقوں میں ہونے والی جنگ سے کرنے لگا خدا نہ کرے کہ پاکستانی علاقوں میں ایسی صورتحال پیدا ہو اس نے جھرجھری لی۔کیا مجھے یہاں واپس آ جانا چاہئے وہ خود سے سوال کر رہا تھا“تمہارا مقصد عظیم ہے، تم ایک اسلامی سلطنت کے محافظ ہو، مجاہد ہو۔ تم کو ہر گز خدا کا دیا یہ تحفہ رد نہیں کرنا چاہئے، یہاں جنگ کی نہیں امداد کی ضرورت ہے، تم بسم ا للہ کرو میں تمہاری مدد کروں گا“۔ سلیمان جیسے اس کی سوچ پڑھ رہا تھا۔“ میں دونوں جانب کام شروع کروں گا “۔سلیمان نے سر ہلایا۔
پھر ایک سال کے اندر اس نے دونوں جانب ایک این جی او قائم کی جو خوراک اورکپڑوں کا بندوبست کر رہی تھی۔ اس نے یہ کام عبداللہ کی رضامندی سے شروع کیا تھا وہ کبھی کبھار وہاں کا چکر لگاتا ،لوگ اس سے اپنے مسائل بتاتے سلیمان ترجمان کے فرائض نبھاتا۔اسکو عربی اور انگریزی دونوں زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ وہ جہاں تک ممکن ہوتا ان کے مسائل حل کرنے کی کوشش کرتا،میں ایک ایسی ہی این جی او پاکستان میں بھی شروع کر رہا ہوں وہاں کا انتظام بابا دیکھیں گے مگر تمہیں انکی کچھ معاملات میں مدد کرنا ہو گی،اس بار دریاے نیل کے کنارے بیٹھے مونگ پھلی کھاتے ہوئے وہ مستقبل کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ ……………………………………
اس دفعہ اس کی پوسٹنگ سیاہ چن ہوئی تھی۔ وہاں جانے سے پہلے فوجیوں کو کافی سخت تربیت حاصل کرنا پڑتی ہے۔سو وہ راولپنڈی سے بریفنگز لے کر اپنے بہت سے ساتھیوں کے ہمراہ گلگت پہنچا تھا ،اب وہاں سےتربیت لے رہا تھا،فارغ ہو کر سڑکوں پر آوارہ گردی کرنے نکل جاتا پہاڑیوں میں گھومتا پھرتا رہتا۔لوگوں کی پلٹتی نظریں دیکھ کر مسکرا دیتا،میرا اصل کہاں ہے ،میرا غرور میری خوشی کس چیز میں پوشیدہ ہے اس نے آوارہ گردی کرتے ہوے فضا میں سانس لیتی مہندی رنگ خزاں سے ،زاعفرانی شاموں سے فضا میں ٹھہری شبنم سے ،خود سے بار بار پوچھا تھا مگر جواب ندارد ۔جس دن وہ سیاہ چن پہنچا اسی دن ساتھ والی پوسٹ سے ایک فوجی کی لاش لائی گئی تھی اور وہ نماز جنازہ کے دوران سوچ رہا تھاشاید یہ اضطراب شہادت سے ختم ہو ، شاید وجود کاغرور شہادت میں پنہاں ہے۔اور اگلے دن ہی بھارتی فوج سے انکا مقابلہ ہوا تھا۔ …………………………………..
وہ پچھلے ایک ہفتے سے وہاں اپنے ساتھیوں کے ساتھ قریبی سکول میں پڑھانے آرہا تھا۔آج ایک بچے نے اس سے کہا تھا کہ وہ بھی بڑا ہو کر فوج میں بھرتی ہونا چاہتا ہے اور وہی فخر محسوس کرنا چاہتا ہے جو سب فوجی لوگ محسوس کرتے ہیں وہ مسکرا دیا تھا۔ وہ بچہ وہ بات جانتا تھاجواسے اتنے سالوں میں سمجھ آئی تھی۔ جب اس نے دشمن فوج کو نعرہ بلند کرتےسنا کہ وہ آج یہاں سے اسلام کا نام مٹائیں گے تو کیسا جنون سوار ہوا تھااس پر اور ان سے لڑتے ہوئے اس نے اپنا ہوش کھو دیا تھا اور اس کو اپنی پہچان مل گئی تھی اس کا تعلق سوڈان یا پاکستان سے نہیں اسلام سے تھا،وہ جہاں قدم رکھ دے وہیں اسکا گھر تھا۔ …………………………………
وہ دنیا کے تیسرے قطب پر کھڑا تھا،سیاہ چن کی برفوں میں ہمالیہ اور قراقرم کے عظیم سلسلوں کے درمیان کہیں اس کا وجود ایک سیاہ نقطے کی مانند تھا،کچھ فرلانگ دور اسکے ساتھی لکڑیاں جلاۓ،چاۓ اور پاکستان ریڈیو پہ چلتے ملی نغموں سے محظوظ ہو رہے تھے،انکے قہقوں کی آوازیں یہاں تک آرہی تھیں،اور سامنے پہاڑ کی چوٹی کی نوک پر چاند آکر ٹھہرگیا تھا جس کی روشنی سے چوٹی کے گرد قوس قزح کا ہالہ بن گیا تھا اور اچانک ساری فضارنگین ہوگئی تھی