زوجہ ابلیس( شیطان کی بیوی): اپنے بچےکو کوستے ہوۓ: ابے او (ولد ابلیس) اٹھ بھی جا نکمے آج کل تو میری کوئی بات نہیں سنتا انسانوں کی صبحت میں رهتے رهتے تم پر بھی انسانوں کا اثر ہو گیا ہے کیا ؟ اپنے ابا حضور(ابلیس) کا نام بدنام کرواے گا کیا؟ چل اٹھ جا فجر کی نماز کا ٹائم ہونے کو ہے جا کے ابا حضور( ابلیس) کےدیرینہ دلی مقصد کو پایہ تکمیل تک پہنچا اور اپنی شیطانیت کا مظاہرہ دکھا کسی کو نماز اور قرآن پڑھنے جیسے نیک کام سے روک. پتا ہے نا ابا حضور(ابلیس) نے کیا سکھایا تھا؟ اگر انسان پر پورے دن شیطانیت کا تسلط قائم رکھنا ہے تو پہلے اسے فجر کی نماز سے روکو اگر اس نے فجر کی نماز ادا کر لی تو یہ اس کی ہم شیطانوں کے خلاف پہلی فتح ہوتی ہے اور پھر سارا دن بڑا ہی تگو دو کرنی پڑتی ہے اسے ورغلانے میں. اپنے ابا حضور(ابلیس) سے ہی کچھ سیکھ سب سے مشکل کام تو انہوں نے اپنے سر لیا ہوا ہے پتا ہے تہجد گزار لوگ کتنے خطر ناک عبادت گزار ہوتے ہیں اور ترے ابا ان کو روکنے کی کوشیش میں دن بدن کمزور ہوتے جاتے ہیں اور اک تم فجر کی نماز سے روکنے کا چھوٹا سا کام بھی پہاڑ سمجتھے ہو چل میرا مردود بیٹا اپنی ماں کی عزت کی لاج رکھ کل کلاں ترے ابو(ابلیس) کو کیا منہ دکھاؤں گی کے کیسی نکھٹو اولاد پیدا کی.
ولد ابلیس (شیطان کا بیٹا): واہ ماں صبح صبح کیا دل جلانے والی بات کی ہے کیا ہم ابا حضور (ابلیس) کو اکیلا چھوڑ دیں وہ بھی اس بڑھاپے میں انسان سمجھا ہے کیا؟ تو کیا اپنے بیٹے کو نا فرمان سمجھتی ہے کے ابا حضور کی بات ٹالوں میری اتنی مجال؟ مجھے اپنے والدین کا احساس انسانوں سے زیادہ ہے اسلیے آج کا کام بھی کل ہی کر آیا تھا ابا حضور(ابلیس) نے میرے ذمے مولوی صاحب کے بیٹے کو فجر کی نماز اور قرآن کی تلاوت سے روکنے کا تھا تو میں اپنا کام نہایت خوبصورتی سے آخری مراحل تک پہنچا کر آیا تھا کل رات کو میں اسے رات ٢ بجے تک ٹی وی کے سامنے بیٹھا کر فلمیں اور گانے دکھاتا رہا باقی کا کام خود بخود ہو جائے گا اب خود ہی سوچ جو آدمی ٢ بجے سوے گا کیا فجر کی نماز کے لئے اٹھ سکے گا اور یہ کام کل اس لئے کیا تھا کیونکے مجھ سے صبح کی میٹھی نیند چھوڑ کے شیطانیاں نہیں ہوتیں.
زوجہ ابلیس: ہاے ہاے میں نہ کہتی تھی تم پر انسانوں کا اثر ہوتا جا رہا ہے ان کو بھی توصبح کی میٹھی نیند چھوڑ کر نماز پڑھنا مشکل ترین مرحلہ لگتا ہے اور تمہیں بھی اب اسی ٹائم اٹھتے ہوۓ موت پڑتی ہے آنے دے ترے ابا(ابلیس) کو آج تیری تو میں دھلائی کرواتی ہوں.
ولد ابلیس:واہ رے میری، شیطانیت، چغل خوری اور کمینگی کی لذت سے بھرپور ماں میری ایک بات اپنے پلو سے باندھ لے ، تو نا اپنی شیطانیاں صرف انسانوں تک ہی محدود رکھ، ورنہ انسانوں جیسا حال ہو گا.
یہ جو آج ہر انسان کے گھر میں لڑائی جھگڑے اور ناراضگیاں، طلاقیں اور بربادی ، بے سکونی ہے نا، اس میں ٩٠% کردار تم جیسی عورتوں کی لگائی بجہائی کا ہوتا ہے میری مانو اگر گھر میں چین اور سکون برقرار رکھنا ہے تو باز آ جاؤ ان رذیل حرکتوں سے بڑی آئی ابا کو بتانے والی.
زوجہ ابلیس: واہ رے میرے جنم جنم کے بدتمیز بیٹے، یقیناَ تم نے اپنے بڑوں سے بداسلوبی کا یہ طریقہ انسانوں سے ہی سیکھا ہو گا جو آج کل اپنے والدین سے تیرے جیسی ہی بیہودہ زبان استمال کرتے اور نصیحتیں کرتے نظر آتے ہیں کیا مشکل زمانہ تھا ہمارا، جب یہ انسان اپنے والدین کی عزت اسطرح سے کرتے تھے کے ہمارے لاکھ بہکانے کے باوجود ان کو دکھ پہنچانا گناہ عظیمہ سمجتھے تھے اور آج کل کے شیطانوں کو تو زیادہ محنت ہی نہیں کرنی پڑتی بس کسی بھی چھوٹی سی غلطی کو انسان کے سامنے رکھ دو باقی کی کمی حضرت انسان خود ہی پورا کر لیتے ہیں . اگر یہی صورت حال رہی تو کچھ عرصے تک ہمارے شیطانی وسوسوں کی بھی ضرورت نہیں رہے گی. چل اٹھ اب کام چور جا کوئی اور شیطانی دکھا کسی کو کاروبار میں فراڈ کرنا سکھا بد دیانتی سکھا دھوکے بازی سکھا خوردونوش کی اشیاء میں ملاوٹ سکھا
ولد ابلیس: دھوکے بازی اور بددیانتی تو ٹھیک لیکن ملاوٹ کا کام میں نہیں کروں گا توبہ کر لی ہے کل سے.
زوجہ ابلیس: ہاے ہاے توبہ کرے (تیرا دشمن) انسان جو فیشن کی طرح ہر وقت ہر برا کام کرتے ہوۓ یا کرنے کے بعد اور آج کل تو ایڈوانس توبہ ( گناہ کرنے سے پہلےتوبہ) بھی کرتا ہے تو نے کیوں کی توبہ؟
ولد ابلیس: بس ماں کل ایک دودھ والے کے پاس گیا تھا دودھ میں پانی ڈالنے پر اکسانے. دل میں خیال آیا کے پہلے دودھ پی کر دیکھ لوں کے خالص ہے یا نہیں اگر وہ پہلے سے ہی ملاوٹ کرتا ہے تو میں کیوں ٹائم برباد کروں بس پھر کیا ماں میں نے اس سے ایک پیالہ دودھ کا پیا بس اس کے بعد جیسے میرے پیٹ میں ایک ناقابل برداشت ایٹمی طوفان سا آ گیا ماں یقین نہیں کرو گی ہم تو بس پانی ڈالنا سکھاتے ہیں مگر اس کمبخت نے کاسٹک سوڈا بال صفا پاؤڈر واشنگ پاؤڈر یوریا کھاد اور چونے جیسے خطرناک کیمیکلز کا استمال کر کے ایسا خالص ملغوبہ تیار کیا تھا کے پاگل کتوں کو دودھ میں زہر ڈال کے دینے کی ضرورت ہی نہیں رہی خالی دودھ ہی کافی تھا اور ماں پاس ہی پانچ چھ مریل سے کتے میری تکلیف دہ کیفیت پر ہنس رہے تھے گویا پوچھ رہے ہوں کے ہماری صحت دیکھ کر بھی احساس نہیں ہوا کے ہم نے دودھ پینا کیوں چھوڑ دیا اور ایک کتا تو شاید کسی ٹی وی پر ایڈ ( مشہوریاں )کرنے والے کا تھا مجھے شرمندہ کرنے کے لئے میرے سامنے ہی دودھ کی مشہوری چلا ڈالی اس نے ( کیا آپ اپنے گلی محلے کے کتوں سے پریشان ہیں اگر آپ کا جواب ہاں ہے تو ایک بار آزمایئے(بابے دین کا) کتے ماردودھ کتا چاہے کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو ایک پیالہ ہی کافی ہے یقین نہ آنے کی صورت میں اپنے کسی دشمن پر آزما کر تسلی بخش نتائج حاصل کریں ) ماں کتے تک نہیں پیتے یہ تو میں صدقے جاؤں حضرت انسان پر جو ایسا زہریلا دودھ روزانہ استمال کرتا ہے اور زندہ بھی رہتا ہے اور میں شیطان ہو کر مرتے مرتے بچا ہوں دیکھ ماں اگر تجھے اپنے لخت جگر کو زندہ دیکھنا ہے تو یہ کام اب مجھ سے نہ کروا اور نہ میں کروں گا ابا. حضور(ابلیس) تو صرف ہڈیاں توڑیں گے وہاں تو میری جان کا خطرہ ہے
زوجہ ابلیس: لگتا ہے ترے ابا حضور(ابلیس) کی زندگی کا دیرینہ مقصد پورا ہونے کو اب کوئی نہیں روک سکتا وہ اکثر فرماتے ہیں کے ہماری انسان کے خلاف جنگ اس دن آخری مراحل میں سمجھنا جس دن شیطان انسانوں سے پناہ مانگے گا تب سمجھ لینا کے ہم اپنے مقصد میں کامیاب ہو چکے ہیں اورتمہاری توبہ کو دیکھ کر یہ احساس ہوتا ہے کےتیرے ابا جان (ابلیس) کی جنگ بس ختم ہونے کو ہے اور ہم سب نے اس جنگ میں اپنا کردار بخوبی نبھایا ہے باقی بیٹا ہمیں اس وقت تک یہ کوشیس جاری رکھنی ہے جب تک وہ جنت اس پر حرام نہ کر دی جائے جس کا انسان سےوعدہ کیا گیا ہے اور وہ پکا دوزخی نہ بن جائے اور دل چھوٹا مت کر اپنی بہن سے ہی کچھ سیکھ آج کل کے دور میں جتنے فتنے فساد طلاقیں لڑائیاں اورقتل ہوتے ہیں وہ سب تیری بہن جیسی عورتوں کی بدولت ہی توممکن ہوتا ہے اوپر سے تیری بہن کا بھی جواب نہیں بھی چھوٹی چھوٹی باتوں کو پہاڑ بنانا کوئی اس سے سیکھے واہ کیا کمال کی ذہانت پائی ہے میری بیٹی نے بلکل اپنی اماں پر گئی ہے (بیٹی کو پکارتے ہوۓ) اری او بنت ابلیس
بنت ابلیس:(شیطان کی بیٹی) جی امی جان کیا ہوا صبح صبح میری تعریفیں کر رہی ہیں انسان سمجھا ہے کے تھوڑی سی تعریف اور خوشامد کر کے کچھ بھی کروا لیا . کہیے کیوں بلایا؟
زوجہ ابلیس: دیکھ تیرا بھائی مایوسی کی باتیں کر رہا ہے کہتا ہے ملاوٹ کروانے کے کام سے توبہ کر لی ہے تو ہی سمجھا کیا سوچیں گے دوسرے شیطان کے اتنا بزدل بچہ ہے ہمارا؟ کیا منہ دکھایں گے خاندان میں؟
بنت ابلیس: کیا بھائی جان اتنی چھوٹی سی بات سے مایوس ہو گئے اور ڈر گئے کچھ انسانوں سے ہی سیکھ لو جو اتنے بڑے بڑے گناہ کرتے اپنے الله سےنہیں ڈرتا باوجود اس کے اسے بار بار قرآن میں بتایا گیا ہے کے دھوکے بازی بددیانتی فتنہ فسادی گناہگار کے لئے ایک بڑا عذاب ہے اور ایک بڑی دوزخ ہے لیکن واہ رے حضرت انسان سب کچھ جانتے ہوۓ بھی ڈرتا نہیں اور یہاں تک کے آج میرے بھائی جیسے شیطان تک اس کی انسانیت سے پناہ مانگنے لگے ہیں ابا جان( ابلیس)صحیح کہتے تھے کے ایک دن انسان شیطانی میں ہم شیطانوں کو پیچھے چھوڑ دے گا اور اس وقت دنیا قیامت کے دہانے پر ہو گی
(شیطان گھر میں داخل ہوتے ہوۓ)
ابلیس: (شکست خوردہ لہجے میں) بلکل ٹھیک کہا میری بیٹی میرے خیال میں اب وہ دن دور نہیں اور میں سوچتا ہوں مجھے اب کچھ دن آرام کر لینا چاہیے اور تم لوگ بھی آرام کرو اب حضرت انسان ہی کافی ہے دنیا کی بربادی کے لئے ہم شیطانوں کی ضرورت نہیں
زوجہ ابلیس: (حیرانگی سے) آپکی طبیعت تو ٹھیک ہے؟( بیٹی کو آواز دیتے ہوۓبنت ابلیس ابا کے لئے پانی لا) کیا ہوا ہار مان لی؟ اس انسان کے سامنے جس کو آپ نے سجدہ کرنے سے انکار کیا جس کو آپ نےاشرف المخلوقات تسلیم کرنے سے انکار کیا جس کی خاطر آپ کی ہزاروں سال کی عبادت مٹی میں ملا دی، جس کی وجہ سے آپ نے اپنے خالق سے حکم عدولی کی اور ہم سب نے مل کر ساری زندگی آپ کی تائید کی اور آج اچانک آپ ساری کاروائیاں روکنے کو کہہ رہے ہیں آخر ہوا کیا ؟ بتانے کی زحمت کریں گے؟
ابلیس : بس آج مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوا ہے اور وہ احساس دلانے والا کوئی اور نہیں ایک انسان ہے وہ انسان جسے میں نے معمولی سمجھا وہ انسان جس کی ایک سبزی کی چھوٹی سی دکان تھی اور میں نے اسے دھوکے بازی اورفراڈ اوربے ایمانی پر اکسا کرسبزیوں کا نامور تاجر بنایا اور جیسا کے ہم شیطان جانتے ہیں کے دنیاوی دولت ثروت اور طاقت عارضی اور وقتی ہوتی ہے ویسے بھی مال حرام میں کبھی برکت ہوتی ہی نہیں تو آج جب اس پر پھر سے براوقت آیا اور دکان پہلے کی طرح خالی رہنے لگی اورجیسا ہم لوگوں میں دستور ہیں کے ایک بار جو شیطانی جال میں پھنس جائے اپنا ایمان گنوا بیٹھے دوبارہ مڑ کر اس کی طرف نہیں دیکھتے میں نے ایسا ہی کیا لیکن ایک دن اس شخص کو دکان میں نماز پڑھتے دیکھ کر میں حیران ہوا مجھ سے یہ کب برداشت ہوتا کے وہ عبادت کرے تو میں نے چند گاہک اس کی دکان کی طرف بھیجے اسکی نماز تڑوانے، لیکن وہ کمبخت نماز توڑنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا مجبوراَ میں نے گاہکوں کی پوری لائن لگوائی موصوف نے جب دیکھا کے گاہکوں کی ایک معقول تعداد جمع ہو گئی ہے تو بڑے اطمینان سے نماز توڑی اور گاہکوں پر احسان جماتے ہوۓ کے نماز بھی آرام سے نہیں پڑھنے دیتے اپنی دکانداری چمکانے لگا اس کے بعد ہر روز بڑے معمول کے ساتھ نماز کے وقت وہ دوبارہ کھڑا ہوجاتا اور بادل نخواستہ مجھے گاہک بھیجنے پڑتے آخر کار میں نے فیصلہ کر لیا کے پتا لگا کر رہوں گا کے یہ نماز کی طرف کیوں راغب ہو رہا ہے تو بھیس بدل کر ایک تاجر کے روپ میں روزانہ اس کی دکان پر جاتا اور اس سے بات چیت کرتا کچھ ہی دنوں میں ہم دونوں گہرے دوست بن گئے سوچا تھا کسی دن شراب پلا کے سچ اگلوا لوں گا تو میں نے ایک دن ڈرتے ڈرتے کے کہیں انکار نہ کر دے کہا کے اگر حضرت شراب کا شوق رکھتے ہیں تو بڑی اعلی چیز ہے خادم کے پاس نوش فرماییں گے؟ تو کہنے لگا نیکی اور پوچھ پوچھ اور میں جو مہینوں سے اس سنہری موقعے کی تلاش میں تھا اثبات کا اشارہ ہوتے ہی جام بھر کے اسکے سامنے رکھ دیا جناب نے شوق سے ٢ جام خالی کیے اور پھر جب انگور کی بیٹی نے اپنا اثر دکھانا شروع کیا تومیں نے اپنے ارادے کے مطابق پوچھا کے حضرت آپ تو نماز کے پابند ہیں تو پھر یہ رندانہ شوق کہا سے پال لئے تو موصوف فرمانے لگے یار کیا نماز کے پابند یہ تو ایک بلیک میلنگ ہے میں نے پوچھا بلیک مینلنگ کس طرح کہنے لگے کبھی سنا ہے کسی نے شیطان کو بلیک میل کیا ہو؟ میں اپنا نام سن کر حیران تو ہوا لیکن نفی میں سر ہلایا اور کہا نہیں جناب ذرا تفصیل سے بتایں گے کہ ماجرا کیا ہے تو جناب کا جواب سن کر میرے ہوش اڑ گئے موصوف فرماتےہیں کے انہوں نے ایک قصہ سنا تھا شیطان کے بارے میں کے ایک دن ایک صاحب کی کوئی چیز گم ہو گئی تو انہوں نے اپنی مسجد کے مولانا سے مدد مانگی تو مولانا صاحب نے کہا کے آج ساری رات نماز پڑھو ان شاللہ مل جائے گی تو وہ صاحب ابھی آدھی رات تک ہی نماز پڑھ پاے تھے کے چیز یاد آ گئی تو دوسرے دن مولانا سے پوچھا کے جناب چیز تو مل گئی تھی آدھی نماز میں ہی لیکن یہ نماز کا کیا چکر ہے تو مولانا نے بتایا کے شیطان یہ کیسے برداشت کر لیتا کے تم ساری رات نماز پڑھتے رہو بس یاد دلا دی چیز کی، لیکن پھر بھی تمہیں چاہیے تھا کے ساری رات نماز پڑھتے رہتے تو جناب یہ قصہ ہم نے پلے باندھ لیا ہے اور جب میں دیکھتا ہوں کے کوئی گاہک نہیں آ رہا تو نماز کے لئے کھڑا ہو جاتا ہوں اور مجبوری میں شیطان کو گاہک بھیجنے پڑتے ہیں نماز تڑوانے کے لئے اورمیں اس وقت تک نماز جاری رکھتا ہوں جب تک گاہکوں کی ایک معقول تعداد نہ جمع ہو جاۓ اورمطلوبہ تعداد جمع ہونے پر بڑے آرام سے نماز توڑ کر گاہکوں کی کھال اتارنا شروع کر دیتا ہوں اورنماز پڑھتے دیکھ کر گاہکوں پر بھی اچھا اثر پڑتا ہے کے بڑا ہی عبادت گزار آدمی ہے قصہ سنا کر بڑے صاحب نے میری طرف داد طلب نظروں سے دیکھا اور پوچھا کیا کہتے ہیں جناب دیکھا کبھی کوئی شیطان کو بلیک میل کرنے والا استاد؟ ہم شیطانی کرنے میں بھی اشرف المخلوقات ہیں بڑا شیطان بنا پھرتا ہے.
اور میں ہکا بکا کہاں داد دینے کی جسارت کرتا اتنی عظیم ہستی کو جو مجھ جیسے شیطان کو بھی بلیک میل کر رہی تھی . بڑے میاں کا قصہ سن کر میرے چودہ طبق روشن ہو چکے تھے اورمیں جو خود کو انسان سے افضل سمجتھا رہا مجھے اپنی تعریف میں اول درجے کے بیوقوف، گدھے اورچغد جیسے لفظ سنائی دے رہے تھے لیکن دل پر پتھر رکھ کر میں نے کہا نہیں جناب آپ تو کمال ہیں شیطان کو تو آپ سے تربیت کی ضرورت ہے اور وہ تو ابھی دودھ پیتا بچہ ہے آپکے سامنے اور اپنی تعریف میں الفاظ سن کر بڑے میاں کا ایمان سے خالی سینہ اور پھول گیا اور میں گھر سے دیر ہو رہی ہے کا بہانہ کر کے وہاں سے نکلا اپنی بے عقلی پر ماتم کرتے ہوۓ اور بڑے میاں کی آخری بات سوچتے ہوۓ کے
شیطانی کرنے میں بھی ہم اشرف المخلوقات ہیں
ابلیس: (بیوی بچوں سے مخاطب) آج مجھے احساس ہو رہا کے میری سب سے بڑی غلطی انسان کی برتری کو تسلیم نہ کرنا تھی مجھے کچھ اندازہ نہ تھا کے جو تکبر میرے اندر تھا وہ تو اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر نہیں اور میں غرور میں بھول گیا تھا کے خالق کائنات نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے جس کا مطلب ہے ہر مخلوق سے افضل اور میں بھی اس خالق کی ایک مخلوق ہوں اور انسان صحیح معنوں میں مجھ سے افضل ہے اور اگر مجھ میں اتنا تکبر ہے تو اس مخلوق میں کتنا ہو گا جو مجھ سے بھی افضل ہے میں تو تکبرمیں انسان کو ایک سجدے سے انکاری تھا خدا کو نہیں اور انسان تو دن میں پانچ بار (نماز) سجدے کا حکم ہونے کے باوجود ایک سجدہ کرنے سے قاصر ہے وہ بھی اس خدا کو جو خالق کائنات ہے اگر میں اپنی فضلیت دکھانے میں جلدی نہ کرتا تو شاید حضرت انسان اپنی کفرانہ تکبرانہ بدنام زمانہ سرگرمیوں کی وجہ سے ایک نہ ایک دن خود ہی اپنے لئے دوزخ کی راہ ہموار کر لیتا لیکن میں نے تکبر میں خوامخواہ یہ بیڑا اپنے سر اٹھا لیا کے میں انسان کو بھٹکاوں گا اور مجھے پورا یقین ہے کےحضرت انسان روز قیامت اپنی غلطیوں کے لئے مجھے قصوروار ٹھہرا کر جنت میں داخل ہونے کا پورا انتظام کر لے گا
اشرف المخلوقات جو ٹھہرا
ابلیس: (اپنے اہل و عیال سے) میں اگر کچھ کر سکتا تو یہ دعا کرتا پروردگار سے کے میرے کفر کو معاف فرما لیکن میں نے تو تکبر میں اپنی پہلی مہلت سے ہی اپنا خاتمہ کفر پر کروا کر اپنے لئے دائمی دوزخ کا بندوبست کر لیا ہے کیونکے
سورة البقرة ( 2 ) إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَمَاتُوا وَهُمْ كُفَّارٌ أُولَئِكَ عَلَيْهِمْ لَعْنَةُ اللّهِ وَالْمَلآئِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ {161} خَالِدِينَ فِيهَا لاَ يُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ وَلاَ هُمْ يُنظَرُونَ{162} جن لوگوں نے کفر کیا اور کفر کی حالت میں ہی مر گئے ، ان پر اللہ اور فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے۔ اسی لعنت زدگی کی حالت میں وہ ہمیشہ رہیں گے ، نہ ان کی سزا میں کوئی تخفیف ہو گی اور نہ انہیں پھر کوئی دوسری مہلت دی جاے گی
لیکن حضرت انسان کو ایک مفت مشورہ دوں گا
دیر نہ کرو امت محمدی کے مسلمانو خوش قسمت لوگ ہو تم سب کیونکہ الله رب العزت قرآن میں فرماتا ہے
قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٓیٰ اَنْفُسِھِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اﷲِ اِنَّ اﷲَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا اِنَّہ، ھُوَا لْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ ﴿الزمر ۳۵﴾
فرما دیجئے! اے میرے بندو! جنہوںنے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے، اﷲ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہ ہو، بے شک اﷲ تعالیٰ سب گناہ بخش دے گا بے شک وہ بخشنے والا رحم والا ہے
جو کوئی گناہ کرے یا اپنے نفس پر ظلم کرے اور الله سے بخشش چاہے تو وہ الله کو بخشنے والا، مہربان پائے گا“ ۔ (سورہٴ نساء آیت:110)
احادیث))حضرت عبدالله بن عمر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا، الله بندہ کی توبہ اس وقت تک قبول فرماتا ہے جب تک کہ ( جان کنی کی ) خرخراہٹ نہ شروع ہو ۔ ( ترمذی)
حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ الله تعالیٰ اپنا ہاتھ رات کو پھیلاتا ہے، تاکہ دن کا گناہ گار توبہ کرے اوراپنا ہاتھ دن کو پھیلاتا ہے ،تاکہ رات کا گناہ گار توبہ کر لے، یہاں تک کہ سورج اپنے ڈوبنے کی جگہ سے نکلے ( یعنی قیامت کا دن آجائے) ۔( مسلم)
فیصلہ امت مسلمہ پر
تحریر : رضوان بھٹی
Superb Article written by Rizwan Bhatti….