اوائیل اگست کےدن ہیں۔ پچھلے کچھ سالوں میں میں نے ان سخت گرمی کے مہینوں میں شاید ہی کبھی بادل کا ٹکرا آسمان پر دیکھا ہو پر پتہ نہیں آجکل بادل کہاں سے تیرتے چلے آتے ہیں۔ہلکی ہوا چلنے لگے تو چھائوں میں سخت گرمی کا موسم بھی اچھا لگنے لگتا ہے۔اس وقت میرے سامنے خلیج عرب کے کنارے کویتی مینار ایستادہ ہیں ،جدید کویت کا نشان،یہ کل تین مینار ہیں ،سب سے بڑا مینار 613.5 فٹ بلند ہے،اس میں کرہ ارض کی طرز کے کیفے اور ریستوران اوپر نیچے تعمیر کئیے گئے ہیں۔ ریستوران کے نیچے 4500 کیوبک میٹر ہجم کی پانی کی ٹینکی ہے۔اوپر والا حصہ جس میں کیفے ہے سطح سمندر سے 123 میٹر بلندہے یہ متحرک ہے اور ہر تیس منٹ بعد چکر مکمل کرتا ہے.دوسرا مینار 147 میٹر بلند ہے اسکو ہانی کا مینار بھی کہتے ہیں۔تیسرے مینار میں دونوں میناروں کو روشن رکھنے کے لئیے مشینری اور سازوسامان وغیرہ رکھا گیا ہے.یہ مینار 2012 سے تعمیراتی کام کی وجہ سے بند ہیں .رات کو خاص طور پر یہ سڑک پر سے گزرتی گاڑیوں میں بیٹھے لوگوں کی توجہ کھینچتےہیں.اور اس وقت انکو دیکھتےہوئے ذہن بھٹک بھٹک کر پاکستان جا پہنچتا ہے.مینار پاکستان کا طواف کرنے لگتا ہے.چودہ اگست کی تاریخ بھی تو چند دن ہی دور ہے.وہی چودہ اگست جس میں صبح سے شام ہو جاتی تھی پورے گھرمیں جھنڈیاں لگاتے،خاص طور پر بازار سے بیجز کی خریداری کرتے،کس کا گھر سب سے اچھا سجا ہے مقابلہ کرتے ،ملی نغمے گاتے اور اب اتنی دور اس دن ایک ہی سوال ذہن میں آتا ہے کہ سات سمندر پار اپنے ملک کے لئیے ہم کیا کر سکتے ہیں.کاش ہمیں بھی کوئی اختیار ہوتا. حالانکہ دیکھا جائے تو یہ بات اتنی نا ممکن نہیں ہے جتنا نظر آتی ہے.ہم یہاں رہ کر بھی ملک کے مدد گار ہو سکتے ہیں، اسکے لئےبہت دور جانے کی بھی ضرورت نہیں بس خود اپنی ذات سے کام شروع کرنا ہے.آج کل ہر ایک کی زبان پر شکوہ ہے کہ حکمران خراب ہیں بات اتنی سی ہے حکمران ہم میں سے ہی اٹھتے ہیں یا یوں کہہ لیں قوم کے کردار کے مطابق اللہ حکمران مقرر کرتا ہے.ہم جیسا حکمران چاہتے ہیں ہمیں خود کو ویسا بنانا ہو گا .اگر ہم چاہتے ہیں پانچ وقت کی نماز پڑهنے والا حکمران ہو، محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت سے محبت کرنے والا ہو تو ہمیں خود پانچ وقت کی نماز پڑھنی ہو گی، سنت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی کرنی ہوگی .اگر ہم بہادر حکمران چاہتے ہیں تو خود بہادر بننا ہو گا ،عادل حکمران چاہتے ہیں خود عادل بننا ہو گا۔ ہم تنہا صدیوں میں بنائے گئے اس سودی نظام اور رشوت کے بازار کو ختم نہیں کر سکتے مگر ہم خود کو ان چیزوں سے جتنا پاک کر سکتے ہیں کرتے چلے جائیں ،یہی پاکستان کی خدمت ہے۔ ہمیں بس شروعات کرنی ہے ۔ انفرادی طور پر اپنے گهر سے، دوستوں اور رشتے داروں سے اورپھر ہماری آنے والی نسلیں ضرور ایک بدلے ہوئے پاکستان کو دیکھیںگی۔ وہ کہتے ہیں نا مومن وہ ہوتا ہے جو تب بھی بیج بوتا ہے جبکہ جانتا ہو کہ اس درخت کے پھلاس کی آنے والی نسل کھائےگی جب وہ خود موجود نہ ہوگا۔ جب ہمارے آباو اجداد نے پاکستان بنانے کے لئے جدوجہد کی تو انہوں نے بھی یقینا” یہی سوچا تھااور آج ہمیں بھی یہی سوچنا ہے۔
گلشن زیست ابھی ویراں نہیں
ابھی چند پتے ہرے ہیں
ابھی موسم خزاں نہیں
باغ کے اس کونے میں دیکھو
پھولوں کی سرخی ہے
ابھی کوئل کے دل میں
امید بہار باقی ہے
اٹھو بیج بوتے ہیں
کہ یہ وقت آہ و فغاں نہیں
ابھی موسم خزاں نہیں
ام قاسم