تیری محفل کو خدا رکھے ابد تک قائم
تجھ کو کتنوں کا لہو چاہیے اے ارضِ وطن
جو ترے عارضِ بے رنگ کو گلنار کریں
کتنی آہوں سے کلیجہ ترا ٹھنڈا ہوگا
کتنے آنسو ترے صحراؤں کو گلزار کریں
تیرے ایوانوں میں پُرزے ہوئے پیماں کتنے
کتنے وعدے جو نہ آسودہ اقرار ہوئے
کتنی آنکھوں کو نظر کھا گئی بد خواہوں کی
خواب کتنے تیری شاہ راہوں میں سنگسار ہوئے
بلا کشانِ محبت پہ جو ہوا سو ہُوا
جو مجھ پہ گزری مت اس سے کہو، ہوا سو ہوا
مبادا ہو کوئی ظالم تیرا دامن گیر
لہو کے داغ تو دامن سے دھو، ہوا سو ہوا
ہم تو مجبورِ وفا ہیں مگر اے جانِ جہاں
اپنے عشاق سے ایسے بھی کوئی کرتا ہے
تیری محفل کو خدا رکھے ابد تک قائم
ہم تو مہمان ہیں گھڑی بھر کے ہمارا کیا ہے
افق پر پھیلی سورج کی ٹھنڈی ٹھنڈی روشنی اور باد صبا کے جھونکوں سے جھومتے درخت شیشے کے پار سے بھی فرحت بخش محسوس ہو رہے تھے.ہوا میں موجود شبنم سورج کی حلاوت آمیز روشنی سے قطرہ قطرہ پگھل رہی تھی.میرے اندازے کے مطابق صبح چھ بجے کا وقت ہو گا۔میں نے جمائی روکتے ہوئے ایئرپورٹ لاؤنج سے باہر نگاہ ڈالی،جہاں مختلف ائیر لائنز کے لاتعداد چھوٹے،بڑے جہاز کھڑے تھے.کچھ میں سامان لوڈ کیا جا رہا تھا اور کچھ پرواز کے لیئے بالکل تیار تھے۔
ابو ظہبی ایئرپورٹ دنیا کا تیسرہ بہترین ائیرپورٹ ہے.اس کے کل تین ٹرمینلز ہیں۔ائیرپورٹ کا اندرونی مرکز پرانی طرز کا ہے.عین مرکز میں ایک زمردی رنگ کا ستون ہے جو چھت تک آتےآتے چھتری کی طرح لاجوردی رنگ میں پھیل جاتا ہے. اسی مرکز کےچاروں طرف سے مختلف برینڈز کی دکانیں،کیفیٹیریاز،ہاٹلز وغیرہ دور دور تک پھیلےہو ئے ہیں.ایئرپورٹ اتنے وسیع رقبے پہ پھیلا ہوا ہے کہ بعض اوقات ایک ٹرمینل سے دوسرے ٹرمینل تک جانے کے لیئے ٹرام درکار ہوتی ہے۔ میں پاکستان میں چھٹیاں گزارنے کہ بعد واپس کویت جا رہا تھا۔میری کنیکٹنگ فلائٹ تھی،سو ابوظہبی ائیرپورٹ میں قیام میری مجبوری تھی۔بورڈنگ میں ابھی دو گھنٹے باقی تھے، سو میں بڑی دلچسپی اور فرصت سے لوگوں کی حرکات و سکنات کا جائزہ لے رہا تھا،مثلا” ایک چودہ، پندرہ سال کی لڑکی سر جھلا جھلا کر وائی فائی کنیکٹ کرنے کی کوشش کر رہی تھی مگر شاید کامیاب نہیں ہو پا رہی تھی،دائیں طرف پچھلی کرسیوں میں ایک خاتون کتاب میں سر دیئے دنیا و مافیا سے بے خبربیٹھی تھیں ،ان سے پچھلی کرسی پر کسی حضرت کےخراٹے گونج رہے تھے،کچھ کے چہروں پر دنیا جہان کی پیزاری تھی مانو زبردستی بھیجے گئےہوں،اورکچھ کی پرشوق نگاہیں ان کی اندرونی خوشی کی غماز تھیں مثلاً وہ جھینپی جھینپی سی ایشیائی عورتیں جوبنارسی کام والی ساڑھیاں پہنے آنکھوں میں جانے کون کونسے خواب سجائے خادمائیں بننے جا رہی تھیں،کچھ شوقین مزاج لوگ قیمت کی پرواہ کیئے بغیر خریداری میں مصرؤف تھے جن میں زیادہ تعداد یقنی طور پر خواتین کی تھی۔
مجھے بورڈنگ سے آدھا گھنٹہ پہلے گیٹ نمبر 47 پہ چلے جانا چاہیے، میں نے کافی کا گھونٹ بھرتے ہوے سوچا۔اس گیٹ سے کویت کے لئیے ہوائی جہاز نے روانہ ہونا تھا۔اب میں کچھ کچھ بوریت محسوس کرنے لگا تھا، اس لئیے کافی سے دل بہلا رہا تھا.اتنے میں ایک انگریز جس کی عمر ساٹھ پینسٹھ کے لگ بھگ ہو گی اپنے سازوسامان سمیت سامنے والی کرسی پہ آ کر براجمان ہو گیا،کہاں جا رہے ہیں آپ؟ اس نے اپنا بیگ زمین پر کرسی کے ساتھ رکھتے ہوے عربی میں پوچھا.میرے اندازے کے مطابق وجہ شاید وہ تسبیح تھی جو اس وقت میرے ہاتھ میں لپٹی تھی یا پھر میری داڑھی!میرا تعلق پاکستان سے ہے،میں عربی نہیں جانتا میں نے بمشکل اپنی حیرانی چھپاتے ہوے انگریزی میں کہا۔
وہ !میں سمجھا تم عرب ہو ،وہ مسکراتے ہوے شستہ انگریزی میں بولا.میں بھی جھینپ کر مسکرا دیا۔
تو کہاں جا رہے ہیں آپ ؟اس نے اپنا سوال انگریزی میں دہرایا.میں کویت جا رہا ہوں میں نے مختصرا” جواب دیا۔پھر وہ میری کویت میں ملازمت کی نوعیت کے متلعق گفتگو کرنے لگا۔باتوں باتوں میں اس نے مجھے بتایا کہ وہ عراق جا رہا ہے اور مختلف عرب ممالک میں رہنے کے باعث اس نے عربی زبان سیکھی ہے اس سے مقامی لوگوں کے ساتھ رابطہ رکھنے میں آسانی رہتی ہے ۔کچھ میری ملازمت کی نوعیت بھی ایسی ہے وہ گود میں رکھا لیپ ٹاپ کرسی کے ساتھ نسب میز پر رکھتے ہوے بولا،کیا جاب ہے آپ کی؟ اب مجھے بھی اس بوڑھے انگریز میں دلچسپی سی محسوس ہونے لگی تھی۔وہ مجھے بڑا ذی شعور لگا تھا۔میں فوج میں ہوں،امریکن فوج میں.وہ مسکرایا جو کہ شاید اسکی عادت تھی ،جبکہ میرے دل کی کیفیت اسکا جواب سن کر عجیب سی ہو گئی۔میں آرمی میں کنسلٹنٹ ہوں،مجھے جنگ کے دوران افغانستان رہنے کا بھی موقع ملا ہے،وہ میری کیفیت سے بےخبر مجھے بتا رہا تھا۔
ہنہ۔۔۔ میں نے ہنکارا بھرا، میرے اندر ابال سا اٹھنے لگا۔
تو آپ کی کیا رائے ہے، پاکستان اور افغانستان میں جنگ ہی واحد حل ہے؟ میں نے اپنے اندر اٹھتے ابال کو بمشکل دباتے ہوے کہا۔میرے جذبہ حب الوطنی اور جذبہ مصطفوی نے بڑی زور سے انگڑائی لی تھی۔
ظاہر ہے، وہ بڑی بردباری سے بولا۔
وہ لوگ کتنے ظالم اور جاہل ہیں کیا آپ کو اس کا اندازہ ہے ؟غالبا”وہ میرے جذبات سمجھ چکا تھا۔ اپنی عورتوں پر کس طرح انسانیت سوز مظالم ڈھاتے ہیں، انہیں بھیڑ بکریوں کی طرح رکھتے ہیں،وہ تعلیم حاصل نہیں کر سکتیں،گھروں سے باہر نہیں نکل سکتیں کسی سے بات نہیں کر سکتیں،اور بھی جانے کون کون سے جبر کے قصے سنانے لگا غالبا”وہ مجھے قائل کرنا چاہ رہا تھا۔میں جزبز سا ہو کے رہ گیا، مجھے ان علاقوں میں جانے کا کبھی اتفاق ہی نہیں ہوا تھا۔وہاں کے بارے میں میری ساری معلومات کا دارومدار خبرناموں اور تجزیاتی پروگرامز پر تھا۔جبکہ سامنے بیٹھا شخص وہاں کے حالات کے گواہ ہونے کا داعویدر تھا ،سو میں ایک پل کے لئیے خاموش سا ہو گیا۔
کیا میں اس کو سمجھا سکتا تھا،جن کو وہ جاہل کہہ رہا ہے ان کے آباواجداد کی علم اور تحقیق کی بدولت آج کی دنیا کی ترقی کا دارومدار ہے، جنکی خواتین بلند پایہ سکالرز گزری ہیں، انہوں نے 1821 میں عورتوں کے لئیے یونیورسٹی کی منظوری دی جبکہ ا ن جاہلوں کی تاریخ میں خواتین کی یونیورسٹی 841میں تعمیر ہوئی، جہاں سائنس بھی پڑھائی جاتی تھی جنہوں نے دوردراز علاقوں میں سفر کر کے تعلیم عام کی.جن کے علم سے ایک عالم نے فیض اٹھایا،خواہ مرد ہوں یا خواتین۔
تو آپ کو کیا لگتا ہے ،جب آپ ڈرون حملے کرتے ہیں اور ہزاروں بے گناہ مارے جاتے ہیں، معذور ہو جاتے ہیں ،کیا ان کے باپ ،بھائی، بیٹے بدلے کی آگ میں نہیں جلیں گے ،دہشت گرد نہیں بنیں گے؟میں خیالوں کی رو سے نکل کر جذباتی لہجے میں بولا،میں خود ایسے کئی لوگوں کو جانتا ہوں جن کے بےگناہ ،معصوم بیوی، بچے ڈرون کا شکار ہوئے۔
درست فرمایا آپ نے، اس نے گلا کھنکارا۔لیکن اسکے علاوہ ہمارے پاس کوئی چارہ بھی تو نہیں،ہم اپنے فوجیوں کی جان خطرے میں تو نہیں ڈال سکتے نا۔
اتنی ارزاں نہیں ہے ایک امریکی کی جان۔میرے چہرے پر زخمی سی مسکراہٹ ابھری۔
مجھے اپنے ایک سیاستدان کا بیان یاد آ گیا۔جب کوئٹہ میں چاروں طرف لاشیں بکھری پڑی تھیں، ہر طرف خون ہی خون تھا،لوگ بھوکے پیاسے بارش میں لاشوں سمیت بیٹھے تھے،تو باہر کے ملک عیش کوشی پہ اعتراض کرنے پر اس نے جل کرکہا تھا کہ وہ ورثاء کے آنسو پونچھنے کے لئے رومال بھیج دیتا ہے ۔
ہم نےخود ہی ان کو ملک کے اندر گھسایا ہےاب خود ہی شکوہ کناں ہیں۔میں آزردہ سا ہو گیا۔میں اس کے سامنے ایسا محسوس کر رہا تھا جیسے شاید پاکستانی حکمران امریکیوں کے سامنے بےبسی محسوس کرتے ہوں گے۔وہ میری کیفیت سمجھ رہا تھا اس لئےموضوع تبدیل کرنے کی غرض سے اس ے پوچھا،تمہاری شادی ہو چکی ہے ؟
نہیں،میں نے مختصرا”جواب دینے پر اکتفا کیا۔
میری شادی کو پینتیس سال گزر چکے ہیں اورمیرے کل سولہ پوتے، پوتیاں اور نواسے ،نواسیاں ہیں مگر میری بیوی خود کو بوڑھا ماننے پر تیار نہیں ہوتی،
وہ دھیرے سے مسکراکر بولا ۔پھر جانے کیوں وہ اپنے بچپن کی باتیں کرنے لگا۔
بچپن میں، میں جب کبھی حبشی بچوں کے ساتھ کھیلنے لگتا تو میری ماں بہت برا مناتی تھی،مجھے خوب ڈانٹ پڑتی میرے باہر جانے پر پابندی لگ جاتی ۔
اس نے تھوڑا توقف کیا،پر میں جانتا ہوں،و ہ غلط تھی۔۔۔
وہ مزید کہنے لگا،اس دنیا میں ہر انسان کا تعلق ایک خدا سے ہے خواہ وہ کسی بھی رنگ، نسل،مذہب اور طبقےسے تعلق رکھتا ہو، بس یہی سمجھنے کی دیر ہے۔
اتنے میں اس کی فلائٹ کا اعلان ہونے لگا،وہ مصافحہ کر کہ چل دیا۔
یہ تو میرا دین بھی کہتا ہے یہی چیز تو ہم لوگ نہیں سمجھ سکے ورنہ یہ لوگ جو آج آزردہ حال ہیں تعلیمی اور معاشی طور پر ہم سے پیچھے کیوں رہتے؟اگر جو حاکم ,وڈیرے,سیاستدان ان کا اسحتحصال نہ کرتے تو آج یہ بھی ہم جیسے ہوتے پھر ہمارے دشمن ان کا استعمال کیسے کرتے؟ اور وہ جو کہ ہمارا خود کا حصہ ہیں ہمارے ہی خون کے پیاسے نہ ہوتے ۔میں اس امریکن فوجی کو بھیڑمیں گم ہوتا دیکھ کر سوچ رہا تھا۔
ام قاسم کویت