بیس تک پسپائی

Pakistan-India-War-1965

” ایک بڑی جنگ دریائے بیس کے مغرب میں انڈین آرمی کی مکمل تباہی کی شکل میں ختم ہو جائیگی اور دشمن فوجیں ( پاک فوج ) بلا مزاحمت دہلی کے دروازوں پر پہنچ جائنگی۔”
(1965 WAR-The Inside Story by R.D. Pradhan)

کیا کوئی یقین کر سکتا ہے کہ یہ الفاظ اس جنرل چودھری کے ہیں جس نے لاہور جمخانہ میں شراب پینے کا اعلان کیا تھا ۔۔!

65ء کی جنگ کے بارے میں درحقیقت خود انڈین کیا کہتے ہیں ۔۔!

ڈاکٹر پردھان اور ہربخش سنگھ دونوں وہ انڈین ہیں جنہوں نے 65ء کی جنگ میں حصہ لیا تھا۔ پردھان ایک سویلین تھے جو انڈین وزیر دفاع "وائی بی چاون” کے ساتھ کام کرتے تھے جبکہ جنرل ہربخش سنگھ فرنٹ لائن پر اپنی فوجوں کی کمان کر رہے تھے۔
دونوں نے اپنے ذاتی مشاہدے کی بنا پر کتابیں لکھی ہیں جن میں تفصیل سے ذکر ہے کہ جنگ کا آغاز کیسے ہوا دوران جنگ کیا ہوا اور ستمبر میں اسکا اختتام کس طرح ہوا۔

پردھان اپنی کتاب "1965 War-The Inside Story” کے باب نمبر 8 میں ” گھبراہٹ اور بزدلی ” کے عنوان سے میجر جنرل نرینجن پرساد جو لاہور سیکٹر میں کمانڈ کر رہے تھے کا تفصیل سے ذکر کرتا ہے ۔ انکے مطابق جب پاک فوج نے حملہ آور انڈین فوج پر جوابی حملہ کیا تو جنرل موصوف میدان جنگ سے "بھاگ” گئے تھے ۔ ایک مختصر ٹکڑا ملاحظہ کیجیے ۔۔۔

"لیفٹیننٹ جنرل ہربخش سنگھ اور کروپ کمانڈر کو جونگا ( ملٹری جیپ) میں محاذ پر لے جایا گیا۔ کمانڈر صاحب نے دیکھا کہ دشمن ( پاک فوج ) کے فضائی حملوں نے جی ٹی روڈ ( انڈین) پر تباہی پھیلائی ہوئی ہے ۔ گاڑیاں جل رہی تھیں اور 15ویں انڈین ڈیوژن کی بہت سی گاڑیاں سڑک پر بے آسرا کھڑی تھیں ۔ ان کے ڈرائور ان کو چھوڑ کر بھاگ چکے تھے ۔ کچھ گاڑیوں کے انجن سٹارٹ حالت میں ہی چھوڑ گئے تھے۔ میجر جنرل نریجن پرساد گنے کے کھیت میں چھپے ہوئے تھے جس کو تازہ تازہ پانی دیا گیا تھا۔ جنرل کی حالت ہربخش سنگھ نے ان الفاظ میں بیان کی ۔ ” وہ ( جنرل نرینجن پرساد) ہمارے استقبال کے لیے اس حالت میں باہر آیا کہ اس کے بوٹوں پر کیچڑ لگی ہوئی تھی۔ نہ اس کے سر پر حفاظتی ٹوپی نظر آرہی تھی نہ اس کے رینک ظاہر کرنے والے بیجز۔ اسکی شیو بڑھی ہوئی تھی ۔” اس حالت میں دیکھ کر ہربخش سنگھ نے سوال کیا ” کیا آپ ڈیوژن کو کمانڈ کرنے والے جنرل ہیں یا قلی ؟ تم نے اپنے رینک کے بیجز کیوں ہٹائے ہوئے ہیں اور شیو کیوں نہیں کی ہوئی ؟”

نریندر پرساد کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔

باب نمبر 12 میں ” بیس تک پسپائی ” کے عنوان سے پردھان تٖفصیل سے بتاتا ہے کہ انڈین آرمی چیف لاہور حملے کے بعد پاک فوج کے خوفناک جوابی ردعمل پر بوکھلا گئے تھے اور پاک فوج کے انتہائی جارحانہ جوابی حملوں پر انڈین فوجوں کی دریائے بیس تک پسپائی پر تیار ہو چکے تھے۔ پردھان پاکستان کے ساتھ 65ء میں ہونے والی جنگ پر بحث کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ انڈین آرمی چیف جنرل چودھری کو خوف لاحق ہوگیا تھا کہ ”
” ایک بڑی جنگ دریائے بیس کے مغرب میں انڈین آرمی کی مکمل تباہی کی شکل میں ختم ہو جائیگی اور دشمن فوجیں ( پاک آرمی ) بلا مزاحمت دہلی کے دروازوں پر پہنچ جائینگی۔”

پردھان کی کتاب میں مختلف جگہوں پر انڈیا کے اس وقت وزیر دفاع ” وائی بی چاون” کے تاثرات درج ہیں ۔ مثلاً 9 ستمبر 1965 کے حوالے سے لکھتے ہیں ” تمام محاذوں پر ایک بڑا سخت دن ہے ۔ انتہائی سخت جوابی حملہ جاری ہے اور ہمیں قصور سیکٹر میں پیچھے ہٹنا پڑے گا۔ چیف آف آرمی سٹاف غیر یقینی کیفیت سے دوچار ہیں۔ میں نے اس کو مشورہ دیا کہ آپ محاذ پر جائیں تاکہ صحیح صورت حال خود دیکھ سکیں ۔ اس نے کہا ہے کل جاؤنگا” ۔۔۔

جنرل چودھری درائے بیس تک فوجوں کی پسپائی پر آمادہ ہو چکا تھا یعنی آدھا انڈین پنجاب پاکستان کے حوالے کرنے پر تیار ہو چکا تھا ۔

جنرل بخش نے اس کا یہ مشورہ ماننے سے انکار کر دیا اور کہا کہ یا مجھے لکھ کر دیں یا پھر خود جاکر محاذ کا چارج سنبھالیں۔ دونوں کی یہ گفتگو امبالہ میں ہوئی تھی۔

انڈین ایکسپریس کے ایڈیٹر شیکر گپتا کے مطابق جنرل چودھری جنگ میں کوئی خاص کردار ادا نہیں کر سکے تھےاور انکو مسلسل یہ ڈر لگ رہا کہ وہ پاکستان کے ہاتھوں امرتسر سمیت اپنا آدھا پنجاب( انڈین) کھو دینگے ۔

ہربخش سنگھ تفصیل سے بتاتا ہے کہ لاہور سیکٹر پر حملے کے بعد انڈین فوجوں کا کیا حال تھا۔ جو جنرل اچوچوگلی کنال پر موجود ڈیوژن کی کمانڈ کر رہا تھا وہ گبھراہٹ میں اپنی جیپ ، وائرلس سیٹ چلتی حالت میں اور بریف کیس چھوڑ گیا تھا جس میں حساس نوعیت کی دستاویزات تھیں۔ وہ دستاویزات دوران جنگ ہی ریڈیو پاکستان سے پڑھ کر سنائی گئیں۔ سنگھ ؐمذکورہ جنرل کے کورٹ مارشل کے حق میں تھا لیکن جنرل چودھری نے صرف اس سے استعفی لے لیا۔

شیکر گپتا مزید کہتا ہے جنوب میں جاری جنگ کے حالات زیادہ خراب ہیں کیونکہ ” دشمن ( پاک فوج ) کے جوابی حملوں کے آغاز کے ساتھ ہی وہاں لڑنی والی انڈین آرمی ڈیوژنز میں دراڑیں پڑ گئی ہیں۔”

انڈینز کے علاوہ یہاں کچھ دیگر اس وقت کے غیر ملکی صحافیوں کی مذکورہ جنگ پر رائے شائد آپ کو کافی دلچسپ لگے ۔

” پاکستان کے جلتے ہوئے سورج میں موت کی بو ہے ۔ یہاں یہ ہو رہا ہے کہ حملہ آور فوج بلکل بے بس ہو چکی ہے ۔ وہ اپنی پوری طاقت سے ہر رات ایک نیا حملہ کرتے ہیں جس کو پاکستانی واپس انڈیا کی طرف موڑ دیتے ہیں "
(The London Daily Mirror reported in 1965)

” وہ ایک ایسی قوم سے بری طرح مار کھا رہے ہیں جو آبادی میں انکا ایک چوتھائی ہے اور فوجی قوت کے لحاظ سے ایک تہائی ہے”
(The London Daily Times)

ٹایمز کی رپورٹر Louis Karrar نے لکھا ” اس قوم کو کون شکست دے سکتا ہے جو موت کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلنا جانتی ہو ”

USA – Aviation week نے دسمبر 1968 میں 65ء کی جنگ میں پاک فضائیہ کی انڈیا کے خلاف فتح کو اسرائیل کے 67ء میں عربوں کے خلاف فتح سے تشبیح دی ۔ تاہم پاکستانی فضائیہ کی فتح اس لیے حیران کن تھی کہ جنگ کے آغاز میں انڈیا کو ان پر 5:1 کی برتری حاصل تھی ۔ جب کہ اسرائیل کا معاملہ ایسا نہیں تھا۔ دوسری بات یہ کہ پاکستان نے ائر ٹو ائر کامبیٹ میں فتح حاصل کی نہ کہ زمین پر بمباری کر کے ۔ ا

"یہ ساری وجوہات تھیں جنکی وجہ سے اقوام متحدہ کی سیز فائر کی اپیل سب سے پہلے اور فوری طور پر انڈیا نے منظور کی ۔۔ 21 ستمبر کو انڈیا جبکہ 22 ستمبر کو پاکستان نے ۔ ”
(page 100 of RD Pradhan’s book)

تحریر: شاہد خان

Exit mobile version