کویت غیر ممالک سے تقریباً 40 سے 50 ہزار اپنے شہریوں کو واپس لانے کیلئے دوسرے مرحلے کا آغاز کر رہا ہے تا کہ وہ عید اپنے عزیزوں کے ساتھ منا سکیں۔
اس صدی کے بڑے انخلا کے آپریشن میں کویت ائیرویز، قطر ایئرلائن اور الجزیرہ اہم کردار ادا کریں گی۔ جبکہ کویت میں اتنی بھاری تعداد کیلئے گھریلو کورنٹائن، ریاستی کورنٹائن سنٹر، پنج ستارہ ہوٹل اور تین بڑے ہسپتالوں میں انتظامات مکمل ہیں اور ضروریات پڑنے پر ریاست پرائیویٹ ہسپتالوں کے انتظامات بھی سنبھال سکتی ہے۔
آنے والے تمام شہری وزارت صحت کی جاری کردہ ایپلیکیشن “SHLONIK”( کویتی لہجے میں “شلونک” کا مطلب کیا حال ہے یا لغوی معنی میں اسے آپ کا رنگ کیا ہے) پر بورڈنگ کارڈ کی تفصیلات کے علاوہ اپنے کوائف کا اندراج کریں۔
اس کے علاوہ کویتیوں اور تارکین وطن کیلئے Social Distancing سماجی فاصلے کے نام سے ایک نئی APP متعارف کرائی جائے گی جس سے میل جول میں کمی کے علاوہ گھر سے باہر لوگوں کی نقل و حرکت کی ٹریکنگ کی جا سکے گی تا کہ ضرورت پڑنے پر یہ معلوم کیا جا سکے کہ کس کس سے ملاقات کی اور کہاں کہاں گئے۔
کویت واپس آنے والے شہری “شلونک” APP کے ذریعے رجسٹر کریں گے تا کہ ضرورت پڑنے پر انہیں ہسپتال اور دیگر امداد فوری طور پر مہیا کی جائے اس کے علاوہ کورنٹائن کی خلاف ورزی کرنے والوں کو فوری ٹریک کیا جا سکے۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ کورونا وائرس کے اثرات کو کم کرنے کیلئے کویت باقی دُنیا سے بہتر اقدامات کیسے کر رہا ہے؟
یہاں پر کورونا وائرس کا آغاز تقریباً 23 فروری کو ہوا جس کے بعد یہاں کے قومی دن 25 فروری کی تمام تقریبات منسوخ کر دی گئیں۔ جُزوی لاک ڈاؤن کا آغاز 12 مارچ اور جُزوی کرفیو 22 مارچ کو شُروع کیا گیا جو کہ تاحال جاری ہے۔ اس کے علاوہ محنت کشوں کی 2 بستیوں جلیب الشیوخ اور مھبولہ میں مکمل لاک ڈاؤن جاری ہے۔ اسلامی کانفرنس تنظیم کے ممبر ممالک کی تعداد 57 ہے جن کی مجموعی آبادی تقریباً 1.9 بلین ہے۔ ان میں 53 ممالک مسلم اکثریت کی قومی ریاستیں ہیں (جنہیں ہم غلط طور پر اسلامی ممالک لکھتے ہیں حالانکہ ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہوتا)۔
کویت ان سے کیسے مختلف ہے۔ عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق کویت دُنیا کا چوتھا بڑا امیر مُلک جبکہ خلیج تعاون کونسل میں قطر کے بعد فی کس آمدنی کے حساب سے دوسرا بڑا امیر مُلک ہے۔
کرونا وائرس کے اثرات کے شروعات میں اذان کی تبدیلی، مساجد کی تالا بندی، تعلیمی ادارے، سرکاری دفاتر کی بندش سے آغاز ہوا جبکہ کویت عالمی ادارہ صحت کو 40 ملین ڈالر کا عطیہ دے کر اس عالمی وبا کے پھیلاؤ کو روکنے میں رہنما کردار ادا کیا۔ اس کے علاوہ حکمران خاندان نے 5 ملین دینار کورونا فنڈ میں دیئے۔
کویت میں تعلیم ، صحت اور ہاؤسنگ ریاست کی ذمہ داری ہے جبکہ اپنے عوام کی سہولت کیلئے ایک بہترین سوشل سیکیورٹی کا نظام بھی موجود ہے۔ صحت کے مرکزی انتظام سے تارکین وطن بھی کافی حد تک مُفت علاج کی سہولت سے مستفید ہوتے ہیں۔ مساجد سرکاری کنٹرول میں ہونے کی وجہ سے کسی مُلا یا مذہبی کو چوں کرنے کی جُرات نہیں ہو سکی البتہ سوشل میڈیا پر کچھ انتہا پسند مُلا تلملاتے نظر آتے ہیں۔
حکومت کویت نے کورونا کے اثرات کا مقابلہ کرنے کیلئے جدید ٹیکنالوجی کا بھرپور استعمال کیا ہے جس میں مثال کے طور پر ہر علاقے میں جمیعیہ COOP یا اشیائے خوردونوش کی خریداری کے مراکز سے آپ گھر بیٹھے APP ڈاؤن لوڈ کر کے اپنی ضروریات کی اشیا منگوا سکتے ہیں۔ ویزے، اقامے، ڈرائیونگ لائسنس اور کار انشورنس کی تجدید کیلئے بھی APP موجود ہیں۔ پرانے اور موذی امراض میں مبتلا شہری اور تارکین وطن APP کے ذریعے گھر بیٹھے مفت میں سرکاری ہسپتالوں کے ذریعے دوا منگوا سکتے ہیں ۔
کویت میں چالیس خیراتی تنظیموں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا گیا ہے جہاں ایک ایپ کے ذریعے تمام ضرورتمند امداد کے لیے رجوع کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ زراعت کے شعبے سے منسلک مخیرحضرات اپنے ٹرکوں کو کھلی جگہوں پر پار کرکے مختلف تازہ سبزیاں عوام میں مفت تقسیم کر رہے جہاں پر اکثر انگریزی حروف میں لکھا ہوتا ہے کہ آپ اپنے اور ہمسایوں کے لیے یہ اشیا مفت لے جا سکتے ہیں۔
پرائیویٹ شاپنگ سینٹر اور ریسٹورانٹ میں آن لائن خریداری کی سہولت مفت ڈلیور ی کے ساتھ موجود ہے اکثر شاپنگ سینٹر میں داخلے کے وقت ٹمپریچر چیک کرنے ، سینٹیائز اور دستانے پہننے کے بعد ہی شاپنگ شروع کی جا سکتی ہے۔ غرضیکہ اس کے علاوہ وزارت صحت، وزارت داخلہ اور زندگی کے تمام شعبوں میں ٹیکنالوجی سے مدد لی جا رہی ہے جس کے خاطر خواہ نتائج مرتب ہوئے ہیں۔ ابھی تک کویت میں صرف 3 افراد کی کورونا سے موت ہوئی۔۔
اگر ہم دُنیا کو دیکھیں تو منصوبہ بند یا نیم منصوبہ بند معاشی نظام کے حامل ممالک نے ہی صرف کورونا کا مسئلہ بہترین انداز میں حل کیا ہے۔ جس میں کیوبا، لاؤس، شمالی کوریا، چین اور ویتنام شامل ہیں۔ جبکہ ویتنام اب حفاظتی لباسوں کی ترسیل میں امریکہ کہ مدد کر رہا ہے جبکہ امریکہ گذشتہ صدی میں ویتنام میں دس لاکھ سے زیادہ ویتنامیوں کو ہلاک کر چکا ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام کی رکھوالی ریاستوں شمالی امریکہ اور یورپ کا صحت کا نظام دھڑام سے گر پڑا ہے اور نام نہاد فلاحی ریاستیں (سکینڈے نیویا) بھی ننگی ہو کر سامنے آ گئیں۔ اور تیسرے فریق کے طور پر خلیجی ریاستیں اس موزی مرض سے نمٹنے کیلئے بہت بہتر انداز میں نبرد آزما ہو رہی ہیں۔
(اس بلاگ کی تیاری میں ساتھی اشفاق اور نورین کی مدد شامل ہے) جاوید احمد۔