اردو کویت: ترکیہ اور روس کے تعلقات، ہمیشہ بات چیت اور تعاون کے ذریعے درپیش چیلنجوں پر قابو پانے میں کامیاب رہے ہیں
صدر رجب طیب ایردوان نے کہا کہ انہوں نے روسی صدر ولادیمیر کے ہمراہ روبل کے ساتھ تجارت پر اتفاق کیا۔
گزشتہ روز روسی شہر سوچی میں روسی صدر پوتن سے ملاقات کے بعد صدر ایردوان نے وطن واپسی پر طیارے میں موجود صحافیوں کے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے اپنے جائزے پیش کیے۔
پوتن کے ساتھ دوطرفہ تعلقات اور بین الاقوامی مسائل کا بخوبی جائزہ لینے کا اظہار کرنے والے ایردوان نے کہا کہ انہوں نے پوتن کو ترکی میں اعلیٰ سطحی تعاون کونسل کے اجلاس میں شرکت کی دعوت دی ہے۔
انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ترکی اور روس کے تعلقات، ہمیشہ بات چیت اور تعاون کے ذریعے درپیش چیلنجوں پر قابو پانے میں کامیاب رہے ہیں۔
اس بات کا اظہار کرتے ہوئے کہ انہوں نے دو طرفہ ملاقات کے دوران تجارتی اور اقتصادی تعاون کو مزید فروغ دینے کے بارے میں خیالات کا تبادلہ کیا، صدر نے کہا، "ہم نے جناب پوتن کے ساتھ روبل کے ساتھ تجارت پر اتفاق کیا ہے۔ روس کے میر کارڈ پر اس وقت ہمارے پانچ بینک اس چیز پر کام کر رہے ہیں، یہ چیز روس سے آنے والے سیاحوں کو کافی آسانیاں پہنچائے گا۔
انہوں نے بتایا کہ شام میں ڈھیرے جمانے والی دہشت گرد تنظیموں کے خلاف اٹھائے جانے والے اقدامات پر بھی غور کیا گیا ہے اور "شام کی علاقائی سالمیت کے لیے خطرہ بننے والے اور شامی شہریوں سمیت سیکیورٹی اہلکاروں پر حملہ کرنے والے ان قاتلوں کے ریوڑ کے خلاف جنگ میں مل کر ضروری جواب دینے پر اتفاق کیا گیا ہے۔
یہ بتاتے ہوئے کہ انہوں نے ترکی کے روس کے ساتھ مذاکرات کے قفقاز، شام اور یوکرین میں مثبت اثرات کا مشاہدہ کیا ہے جناب ایردوان نے بتایا کہ "میں شروع سے اس بات پر زور دیتا رہا ہوں کہ یوکرین کی جنگ میں کوئی فاتح نہیں ہوگا۔ زمینی مشکلات کے باوجود، میں اپنے پختہ یقین کو برقرار رکھتا ہوں کہ بحران مذاکرات کی میز پر ہی حل کیا جائے گا۔” میں نے صدر پوتن کو یاد دہانی کرائی ہے کہ ہم پوتن کی یوکیرنی صدر زیلنسکی کے ساتھ ان کی ملاقات کی میزبانی کر سکتے ہیں۔ ہم علاقائی اور عالمی امن میں کردار ادا کرنے کے لیے اپنے پڑوسی روس کے ساتھ ہر میدان میں بات چیت کو آگے بڑھاتے رہیں گے۔”
صدر ایردوان نے اناج کی ترسیل کے معاملے پر جرمنی اور فرانس کے ترکی کو ہدف بنانے پر مبنی بیانات پر رد عمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ
"استنبول سے گزرنے والا رازونی ڈرائی مال بردار جہاز دراصل پہلا تھا۔ اس کے پیچھے 20 کے قریب بحری جہاز قطار میں کھڑے ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ روس اب کہہ رہا ہے کہ "آپ ہمارے اناج کے لیے کب ثالثی کریں گے؟” ہماری متعلقہ وزارتیں اس معاملے پر تیزی سے کام کر رہی ہیں۔ "