راوی دریا سردیوں میں جب خود کو سمیٹ کر ایک نالے کی شکل اختیار کر لیا کرتا تھا تو مقامی لوگ نومبر اور دسمبر کے مہینے میں ایک سے دو فٹ کا سوراخ کرکے اس زمین میں تربوز کا بیج لگا دیتے تھے جہاں کچھ عرصہ پہلے تک دریا بہہ رھا ہوتا تھا۔ چند دن میں بیج سے پودا نکل آتا اور سردیاں شروع ہونے پر اس کے اوپر پرالی یا چھڑیوں کا سایہ کرکے اسے سردی سے بچایا جاتا تھا۔ جونہی سردیاں گزرتی تھیں تو بیل ایک دم سے پھیل کر پھل اٹھا لیتی تھی۔ نہ اسکو پانی دینے کی ضرورت پڑتی تھی اور نہ کسی کھاد کی۔۔ دریا کی قدرتی کھاد کی مدد سے تربوز تیار ہوجاتا تھا لیکن مسئلہ یہ تھا کہ کئی بار تربوز کا سائز تیس کلو تک بھی پہنچ جاتا تھا لیکن وہ سرخ نہیں ہوتا تھا۔دوسرا بیل سے ٹوٹنے کے بعد زیادہ دن تک تازہ نہیں رہتا تھا۔بہت زیادہ گرمی یا سردی کو برداش کرنے کی صلاحیت بھی بہت اچھی نہیں تھی۔ اس وقت خریداری کے وقت تربوز کا ہمیشہ ایک ٹکڑا نکال کر پہلے چیک کیا جاتا تھااور اگر سرخ ہے تو تربوزخریدا جاتا تھا۔۔۔
پھر زرعی سائنسدانوں نے اس کے بیج پر کام کرنا شروع کیا۔ جس سے تربوز کا سائز بھی کم ہوا اور اس کے کچے رہ جانے کے امکان بھی معدوم ہوگئے ۔ بیماری اور موسم کی سختی کے خلاف مدافعت بھی زیادہ ہوگئی۔۔۔
نومبر دسمبر میں اسکا بیج جو چار سے پانچ روپے کا ملتا ہے۔۔جی ہاں ایک بیج۔۔پٹریوں پر لگا کر اس پر شاپر چڑھا دیا جاتا ہے۔۔بیج لگانے سے پہلے خاص طریقے سے زمین تیار کی جاتی ہے۔ کھادوں کا مٹی میں اضافہ کیا جاتا ہے۔۔اور پودوں کی ضرورت کے مطابق وقتا فوقتا کھادوں اور سپرے کا استعمال جاری رہتا ہے۔۔نومولود پودوں کی سردیاں شاپر کے نیچے گزرتی ہیں۔ جونہی موسم گرم ہونا شروع ہوتا ہے تو کسان دن کو شاپر اتار کر دھوپ لگواتا ہے اور شام کو پھر سے کہر کے ڈر سے ڈھانپ دیتا ہے۔ فروری کے آخر میں پھل لگنا شروع ہوجاتا ہے ۔جو مارچ کے اختتام تک تیار ہونا شروع ہوجاتا ہے۔۔۔
جس وقت تربوز کو کھیت سے اٹھایا جاتا ہے۔اور اگر اس وقت اسے کاٹا جائے تو وہ اندر سے کچا نکل سکتا ہے لیکن خریدار تک پہنچتے پہنچتے تیار ہو چکا ہوتا ہے اور بہترین بیج کھادوں اور کسان کی محنت کہ وجہ سے اب لگ بھگ نوے فیصد تربوز ناصرف سرخ نکلے گا بلکہ بہترین مٹھاس کے ساتھ ذائقہ بھی دے گا۔۔
اس سال سردیوں کا دورنیہ معمول سے کچھ طویل رھا۔ جس وجہ سے پھل کو تیار ہونے میں زیادہ وقت لگا۔ اور اس آئیڈیل موسم نے تربوز کی مٹھاس اور ذائقے میں بھی اضافہ کر دیا۔۔
کسان لاکھوں روپے خرچ کرکے اور اپنی ساری توانائیاں استعمال کرکے میٹھا، ذائقے دار سرخ تربوز تیار کرکے دیتا ہے اور کوئی نام نہاد دانشور اٹھتا ہے اور سارا کریڈٹ مصنوعی رنگ اور میٹھے کو دے دیتا ہے۔۔
تربوز کو مصنوعی طریقے سے میٹھا اور سرخ بنانے کے واقعات یا حقیقت اتنی ہی ہے جتنی سوشل میڈیا پر مصنوعی چاول، مصنوعی انڈوں اور سرخ لیچی کی ہے۔۔
چلیں میں آپکو ایک ایکٹوٹی دیتا ہوں۔ ایک تربوز لیں اور اسے صرف سکرین کا ٹیکہ لگا کر چھوڑ دیں۔ اور چند گھنٹوں بعد اسے کاٹیں
اور پھر اسکے اندر کی حالت یا ٹیسٹ کو خود چیک کرلیں۔۔
کوئی بھی پھل مصنوعی طریقے سے میٹھا بنانے کی کوشش کے بعد زیادہ دیر نہیں اپنی تازگی برقرار نہیں رکھ سکتا اور پانی چھوڑ دے گا یا پھر اس کا گودا خراب ہوجائے گا۔۔
(میرا تعلق مامونکانجن سے ہے۔ جہاں کا تربوز ناصرف پاکستان بلکہ ملک سے باہر بھی پسند کیا جاتا ہے۔۔راوی کا تربوز کے نام سے آپکو ایلیٹ ایریاز میں مپنگے داموں اسکا شیک ملے گا۔ ہر سال ہزاروں ٹرک یہاں سے لوڈ ہوکر افغانستان گلگت بلتستان کے پی کے اور وسطی ایشیا جاتے ہیں۔ اور ہر سال بیج لگانے سے پھل اٹھانے تک کا عمل میری نظروں سے گزرتا ہے)