تحریر: عاصمہ حسن
آج کل کرونا کی وجہ سے حالات کافی خراب ہیں سب اسکول ’کالج‘ یونیورسٹیاں بند ہیں امتحانات ملتوی کر دیے گئے حتٰی کہ بہت سے دفاتر میں کام کرنے والے بھی گھر سے کام کر رہے ہیں لیکن بہت سے دفتر کھلے ہیں خاص کر سرکاری دفاتر جن میں آئی ٹی کی سہولیات موجود نہیں یا ان کے کام کی نوعیت ایسی ہے کہ وہ آن لائن یا گھر سے کام نہیں کر سکتے۔
اسکول ’کالجز اور یونیورسٹیوں کی بات کرتے ہیں۔ آن لائن سسٹم ترتیب دیا گیا ہے جس میں کافی مشکلات کا سامنا ہے اب یہ مشکلات اساتذہ کو بھی ہیں اور بچوں کو بھی۔
بہت سارے اساتذہ اپنے تجربے اور عمر کے حساب سے سینئر ہیں اور ٹیکنالوجی سے بہت دور۔ وہ اُس جنریشن سے تعلق رکھتے ہیں جو تبدیلی کو اتنی جلدی قبول نہیں کرتے اور نہ ہی اپناتے ہیں۔ جن کو انڈروید فون استعمال کرنا مشکل لگتا ہے وہ آن لائن کیسے کام کریں گے ان کے لیے کم وقت میں وڈیوز بنانا ’ہینگ آؤٹ یا زوم پر لیکچر لینا نہ صرف مشکل ہے بلکہ سیکھنا بھی مشکل ہے۔ اور نئی چیز کو سمجھنے میں نہ صرف وقت لگتا ہے بلکہ شروع شروع میں بورنگ بھی لگتا ہے اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ ہم تبدیلی کو جلدی تسلیم نہیں کرتے۔ یہ سسٹم اساتذہ سمیت سب کے لیے نیا ہے۔ نئی چیز کو قبول کرنا مشکل اور اس کے عادی ہونے میں بھی وقت درکار ہوتا ہے۔
اسکول کے بچوں کی بات کریں تو جو بڑی کلاسسز کے بچے ہیں ان کو کمپیوٹر استعمال کرنا آتا ہے یہ بھی ان پرائیویٹ اسکولوں کی بات ہے جہاں باقاعدہ کمپیوٹر سکھایا جاتا ہے۔ گورنمنٹ کے اسکولوں میں حالات مختلف ہیں کیونکہ ہمارا اسکول سسٹم ’نصاب ایک سا نہیں‘ سہولیات اور ماحول ایک جیسا نہیں ہے۔ لیکن چھوٹے بچوں کو جن کو کمپیوٹر استعمال نہیں کرنا آتا ان کے لیے بہت مشکل ہے ظاہر ہے کہ ان کا سارا کام ماؤں کو کرنا پڑتا ہے۔
اب اگر گھر میں چار بچے ہیں تو کیسے وہ وقت کو اور کمپیوٹر یا لیپ ٹاپ کو ’استعمال کے وقت کو تقسیم کرتی ہوں گی اور بچوں کو کام کرواتی ہوں گی اب ضروری نہیں کہ ہر گھر میں لیپ ٹاپ کی انٹرنیٹ کی سہولت موجود ہو اور یہ بھی ضروری نہیں کہ سب مائیں پڑھی لکھی ہوں کہ ان کو آن لائن کام کروا سکیں کیونکہ کمپیوٹر استعمال کرنا پھر کام ڈاؤن لوڈ کرنا‘ گوگل کر کے پہلے خود سمجھنا پھر بچوں کو سمجھانا ایک خاتون جو پڑھی لکھی نہیں اس کے لیے بہت مشکل ہے۔ اکثر بچوں کو آن لائن ایسا کام دیا جاتا ہے جو بچوں کی ذہنی سطح کے مطابق نہیں ہوتا پھر ظاہر ہے مائیں کام کر کے بھیجتی ہیں۔ جس سے بچے خود سیکھ نہیں پاتے ان کی وہ تربیت نہیں ہو پاتی جو ہونی چاہیے۔ ایسی تعلیم کا فائدہ نہیں۔
ایک اور مسلئہ یہ آتا ہے کہ بہت سارے کالج اور یونیورسٹیز ایسی ہیں جن میں طلبا و طالبات ہوسٹل میں مقیم تھے جو دوردراز کے علاقوں اور گاؤں سے تعلق رکھتے ہیں اور مختلف اداروں میں تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ اب جبکہ ادارے بند ہونے کی وجہ سے واپس اپنے گھروں کو چلے گئے ہیں جہاں انٹرنیٹ کی سہولیات میسر نہیں نہ ہی کمپیوٹر وغیرہ کی۔ وہ کیسے لیکچر کی رسائی حاصل کریں گے۔
ترقی یافتہ ممالک میں آن لائن کام کرنا آسان ہے لیکن پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک جہاں ابھی ہم زندگی کی ضروریات کو پورا کرنے کی تگ و دو میں لگے ہوئے ہیں وہاں ابھی کافی وقت لگے گا ٹیکنالوجی کو ہر گھر میں پہنچانے میں اور سکھانے میں ’اور انفراسٹرکچر کو ہر ایک کی پہنچ میں پہنچانے میں۔
سب سے اہم کام انٹرنیٹ کی فراہمی ہے بہت سے دیہی علاقوں میں اس کی سہولیات ہی میسر نہیں ہیں۔ ہمیں سستے انٹرنیٹ کے پیکج یقینی بنانے ہوں گے اور تسسلسل سے انٹرنیٹ کی فراہمی یقینی بنانی ہو گی۔ پھر ہمیں آگاہی مہم چلانی ہو گی لوگوں کو تعلیم کا شعور دینا ہو گا کہ کیسے وہ اس ٹیکنالوجی سے گھر بیٹھ کر فائدہ اُٹھا سکتے ہیں اپنی صلاحتوں کو مزید نکھار سکتے ہیں سب سے بڑھ کر اس وبا کے دنوں کو نتیجہ خیز انداز میں استعمال کر سکتے ہیں۔
ظاہر ہے کہ یہ لاک ڈاؤن ہمیشہ کے لیے نہیں ہے اس لیے جب حالات واپس روٹین پر آئیں تو ہمیں چاہیے کہ اساتذہ اور طلباء کی اصطلاحات پر کام کیا جائے ان کو تربیت دی جائے تاکہ اگر مستقبل میں خدانخواستہ دوبارہ ایسے حالات ہوں تو ہم آسانی سے اپنی ذمہ داریاں نبھا سکیں۔ اس کے ساتھ ساتھ مواصلات کے فرق (کمیونیکیشن گیپ ) کو کم کیا جائے۔
دوسری طرف گورنمنٹ کو چاہیے کہ دوردراز اور پسماندہ علاقوں میں انٹرنیٹ کی فراہمی یقینی بنائیں تاکہ سب کو ایک جیسے مواقع میسر ہو سکیں۔
انٹرنیٹ مہیا کرنے والی کمپنیز کو چاہیے کہ وہ سستے اسٹوڈینٹ پیکج متعارف کرائیں تاکہ سب باآسانی استعمال کر سکیں۔
ہر چیز کے مثبت اور منفی پہلو ہوتے ہیں لیکن یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم کیسے اپنے وسائل کو بہتر انداز میں استعمال کر کے اس سے فائدہ اُٹھاتے ہیں۔ جب کوئی تبدیلی آتی ہے تو اس کو تسلیم کرنے میں عادی ہونے میں وقت لگتا ہے خود کو وقت دیں اور کھلے دل سے اس تبدیلی کو خوش آمدید کہیں اور خود کو ترقی کی راہ پر گامزن کریں۔ کیونکہ اگر ہم آنے والی تبدیلیوں کے ساتھ خود کو نہیں بدلیں گے تو وقت ہمیں روندتا ہوا آگے چلا جائے گا۔