کویت میں کرونا وائرس سے 93 نئے متاثرین کے اضافے کے بعد مجموعی تعداد 1465 ہوگئی ۔ انڈیا ، کویت ، ایران کے بعد بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والا 68 سالہ محنت کش زندگی ہار گیا ۔ اس طرح کرونا وائرس سے اب تک کویت میں کل چھ اموات ہو چکی ہیں ۔ آج متاثرین میں 64 نئے متاثرین کیساتھ بھارتی باشندوں کا گراف مسلسل اوپر جارہا ہے اور ان کی کل تعداد 974 ہوگئی ہے ۔
کویت میں ایشیائی ہنر مند و غیر ہنرمند بیچلر محنت کش اور گھریلو محنت کش خواتین اپنی اپنی جسمانی ضرورت اپنے معاشی استعداد کے مطابق پورا کرتے ہیں ۔ سارک اور آسیان ممالک سے تعلق رکھنے والے یہ افتادگان جزوی جسمانی تعلق رکھنے کیلئے ایک کمرے میں چادر کا پردہ تان کر "ناڑے” والے کا خطاب بھی حاصل کرتے تہے ۔
البتہ کلی طور پر (Live in relation) ساتھ رہنے والوں پر پکڑے جانے کا ایک خوف ضرور طاری رہتا تھا تاہم اسے ایک درجہ آگے مسلم مرد ایک غیر مسلم خاتون کو بظاہر مسلمان بنا کر شادی کا سرٹیفیکیٹ حاصل کرکے خوف سے نجات حاصل کرتے اور ضرورت پڑنے پر واپس اپنے اپنے ممالک میں اپنے مستقل خاندانوں کی جانب لوٹ کر پرانے مذہب کی جانب رجوع کرتے ۔ کویت میں قیام کے دوران چھٹی پر جاتے ہوئے دوسرا فریق اپنے نئے ساتھی کے بچوں کیلئے رضاکارانہ شاپنگ بھی کراتے اور ایک دلچسپ فقرہ بھی سننے کو ملتا کہ "تمہارے بچے ، میرے بچے اور ہمارے بچے” کی یہ شاندار ٹرم زندگی کو خوبصورت بناتے ہوئے "ضرورت ایجاد کی ماں ہے” کا معنی بھی سمجھاتی ۔۔۔۔۔
گھریلو محنت کش خواتین و حضرات اور غیر ہنرمند افراد کیلئے اپنی جسمانی ضرورت پورا کرنے کیلئے تخلیے (پرائویسی)کی خاص جگہ کا انتظام جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا تھا اس لئے کچھ کمپنیوں کے ٹرک ڈرائیور ٹرک کے پچھلے حصے میں گدا ڈال کر جوڑوں کو اس میں سوار کر کے باہر سے لاک کر دیتے اور معینہ وقت پر عوضانہ لے کر لاک کھول دیا جاتا ۔
اب ہم ٹرک کے لاک سے لاک ڈاؤن میں آچکے ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ پہلا تہذیبی انسان سوا ڈیڈھ کروڑ سال پہلے میرے خطے پوٹھوہار کی وادی "سواں ” میں پایا جاتا تھا جسے "پوٹھوہار مانس” کا نام دیا گیا اور ابتدائی غیر طبقاتی سماج کی تاریخ بھی 20 لاکھ سال پرانی ہے ۔ ہزاروں سال سے انسان محبت کا اظہار "بوسے” سے کرتے رہے اور اس طرح انسانوں اور جانوروں میں چومنے اور چاٹنے کا عمل بھی خاصا پرانا ہے اور ہم وثوق سے نہیں کہہ سکتے کہ اس کا آغاز تاریخ کے کس دور میں ہوا تاہم اب "کرونا سینڈروم” نے جہاں اور تبدیلیاں لائی ہیں وہاں محبت کے اظہار کے پرانے طریقوں کو ٹھوکروں میں اڑا دیا ہے ۔
اس تمہید کا مقصد صرف اپنے لوگوں سے اپنے کچھ خدشات شئیر کرنا ھے کہ میرے تارکین وطن زندگی کو اولیت دیتے ہوئے جزوی و کلی جسمانی تعلقات کے لےآسیان اور سارک ممالک کی خواتین سے جہاں پر کورونا کے اثرات بڑھ رہے ہیں ان سے گریز کریں ۔ ۔ شدید جسمانی ضرورت کو انفرادی تسکین یعنی کہ Masturbation جس سے اردو میں جلق یا مشت زنی کہا جاتا ھے سے پورا کیا جائے ۔
کرونا نے تو اب Safe sex کے معنی ہی تبدیل کر دیے ہیں اور اب تو انسان کے سوشل اینیمل یعنی کہ سماجی جانور ہونے کا تصور بھی تبدیل کر دیا ہے۔
میرے مشاہدے میں آرہا ہے کہ کچھ حضرات سنسنی پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں ، ایک پاکستانی فیملی کے کرونا سے متاثر ہونے کی آڈیو کلپ میں یہ کہا جارہا ہے کہ ان کے بچوں کو نظر بند کر دیا گیا ہے جس سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ کوئی چھوٹے بچے گھر کے اندر ہیں حالانکہ اس خاندان کے بڑے فرزند موجود ہیں ۔
کورونا کے حوالے سے کسی متاثرہ شخص یا خاندان کے کسی دوسرے فرد کے نام کا انکشاف کرنا وزارت صحت کی جانب سے جاری کردہ قوانین کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتا ہے ۔ کورونا وائرس سے متاثر ہونے والوں کیلئے سرکاری طور پر ایک عمومی طریقہ کار ہے جس کے مطابق متاثرہ افراد کو کورنٹین سنٹر میں دو ہفتوں کیلئے رکھا جاتا ہے اگر ضرورت پڑے تو انہیں متعلقہ ہسپتال منتقل کر دیتے ہیں جہاں سے صحت یاب ہونے کے بعد معمول کی زندگی گزارتے ہیں ۔ ہمارے خیال میں ہمیں احتیاط سے کام لینا چاھیے ۔
سارک ممالک کے پرہجوم شاپنگ مالز سے اشیائے خوردونوش کی خریداری کے بجائے آن لائن شاپنگ یا جمعیہ (Coop ) کو ترجیح دینی چاہیے ۔ میرے علم میں یہ بات لائی گئی ہے کہ کچھ حضرات سفارتخانے سے خوراک یا مالی امداد کے حصول کیلئے غلط بیانی سے کام لے رہے ہیں اگر واقعی ایسا ہے تو یہ انتہائی نامناسب ہے جب لوگ اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں تو ھم ذرا سے مفاد کیلئے حق داروں کا حق نہ ماریں ۔
کورونا سے جہاں اکثر کاروبار ٹھپ ہو کر رہ گئے وہاں کچھ محدود پیمانے پر نئے بزنس سامنے آئے ہیں ۔ مکمل لاک ڈاؤن والے علاقے مھبولہ اور جلیب الشیوخ سے کچھ ڈرائیور حضرات محنت کشوں کی اسمگلنگ میں ملوث پائے گئے ہیں جن کیلئے وہ سرکاری گاڑیوں کا استعمال کرتے ہیں ۔ پبلک ٹرانسپورٹ بند ہونے کیوجہ سے کچھ لوگ اپنی ذاتی گاڑیوں کو ٹیکسی سروس کے طور پر استعمال کر رہے ہیں ۔ اس کے علاؤہ ضروری عملے کو اپنے اپنے شعبوں میں پہنچانے والے ڈرائیور خضرات بھی ایسا کر رہے ہیں جو کہ غیر قانونی ہے ۔
ہماری گزارش ہے کہ افواہوں پر کان نہ دھریں وزارت صحت اور وزارت داخلہ کی جاری کردہ ہدایات پر عمل کریں ، کویت ٹی وی ، کویت ریڈیو ، نیوز ایجنسی اور مقامی اخبارات کی معلومات کو ترجیح دیں ۔ غیر قانونی ویب سائٹس اور غیر مصدقہ ویڈیو شئیر کرنے سے گریز کریں اور اس ڈائلاگ سے جان چھڑا لیں کہ ” میں نے سنا ہے ” ۔
آج مجھے جابریہ میں کورونا وائرس کیلئے قائم کئے گئے ایک پچیس بستروں پر مشتمل ایمرجنسی یونٹ دیکھنے کا اتفاق ہوا جس سے پتہ چلا کہ انتہائی جدید سہولتوں کے ساتھ قائم اس طرح کے بڑے اور چھوٹے یونٹ بیرون ملک سے آنے والے چالیس ہزار کویتیوں کیلئے کس احسن طریقے سے انتظامات کر لئے گئے ہیں ۔جاوید احمد
نوٹ: اردوکویت یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔