حکمران جھوٹے وعدے تو اردو میں کرتے ہیں لیکن اردو کی بقاء کیلئے کچھ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے
ہمارے ہاں قومی زبان میں بات کرنا شرم اور کم پڑھے لکھے کے زمرے میں آتا ہے
علم لسانیات یعنی زبان کا علم جو علم البشریات یا علم انسانیات (Anthropology) کی ایک ذیلی شاخ ہے۔ اور ہر ایک شخص کے احساسات، جذبات اور خیالات کی واحد ترجمان ہونے کے علاوہ باہمی تعلقات کا اولین ذریعہ بھی ہے۔ زبان بشر کی ایک امتیازی خصوصیت ہے جبکہ دیگر مخلوقات اپنی حرکات و سکنات سے ایک دوسرے کو سمجھتے اور سمجھاتے ہیں۔ زبان میں تین چیزوں کی موجودگی بہت ضروری ہے یعنی اسکے ذریعے ماضی کو یاد کیا جا سکے ،حال کو بیان کیا جائے اور مستقبل کی منصوبہ بندی کے بارے میں بات کی جا سکے۔ یہ حقیقت ہے کہ زبان سیکھنے کا عمل آسان نہیں ہوتا لیکن ماہرین کی رائے ہے کہ یہ مشکلات مادری زبان سیکھنے میں حائل نہیں ہوتی کیونکہ اسکے سیکھنے کا عمل معاشرتی رویے کے مطابق جاری رہتا ہے۔لیکن جب کوئی ایک زبان ملک کی اکثریت پڑھتی اور لکھتی ہوں جسے حکومتی سطح پر بھی متعارف کروایا جائے اور استعمال کیا جائے تو پھر ایسی زبان کو قومی زبان کا درجہ حاصل ہو جاتا ہے تو پھر یہ نہ صرف پوری قوم کی خصوصیات اور روایات کی حامل ہوتی ہے بلکہ منتشر قوم کی شیرازہ بندی بھی کرتی ہے۔ اسی میں عقل و فہیم کی ترقی، قومی ترقی اور انسانیت کا راز بھی پنہاں ہوتاہے۔ ان باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اگر ہم اپنی قومی زبان اردو کی بات کر یں تو یہ ہمیں ایام طفِل سے ہی مظلوم نظر آئے گی جسے کبھی ہمارے دشمنوں نے نقصان پہنچانے کی کوشش کی تو کبھی کسی دوسری زبان میںمد غم کرنا چاہا۔ لیکن یہ پھر بھی اپنی وسیع الدامنی کی بنا پر جگمگاتی رہی۔ تاریخی مطالعے سے آگاہی ہوتی ہے کہ برصغیر میں انگریز حکومت نے مقامی لوگوں سے میل جول بڑھانے کے لئے اردو زبان کا سہارا لیا کیونکہ یہ اس وقت بھی پورے ہندوستان میں عام بول چال کی زبان تھی، اگرچہ ہر علاقے کی مادری زبان بھی موجود تھی مگر سیاسی صورتحال کے پیش نظر فورٹ ولیم کالج میں ڈاکٹر جان کا کرسٹ کو شش جہاں اردو ادب کیلئے سود مند ثابت ہوئیں ،وہی لسانی حوالے سے ہندو مسلم تضاد بھی شروع ہوا
اردو ہندی تضاد کے سلسلے میں با بائے اردو مولوی عبدالحق فرماتے ہیں۔ ’’فورٹ ولیم کالج کے فشیوں نے بیٹھے بٹھائے بلاوجہ اور بغیر ضرورت یہ شوشہ چھوڑا کہ ’’للو جی لال‘‘ نے جو اُردو دان اور اردو کتابوں کے مصنف بھی تھے انہوں نے اسکی بنیاد ڈالی اور وہ اس طرح کہ اردو کی بعض کتابیں لے کر انہوں نے ان میں سے عربی اور فارسی کے الفاظ چن چن کر نکال دئیے۔ اور ان کی جگہ سنسکرت اردو ہندی کے ناموس الفاظ جما دئیے ۔ اس سے ہندی بن گئی اور یوں ہندو مسلم مشترکہ کلچر کی امین اردو زبان باہمی اختلاف کے بھینٹ چڑھ گئی جبکہ عربی اور فارسی رسم الخط ہونے کی وجہ سے ہندوئوںنے اسے اچھوت قرار دے دیا۔جبکہ ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ زبانیں راتوں رات وجود میں نہیں آتی بلکہ انہیں اپنے ارتقائی مراحل سے گزرتے اور منظم ہوتے ہوتے صدیاں لگ جاتی ہیں۔ ار دو نے بھی اپنے معیار تک پہنچنے میں پانچ سے چھ صدیاں لیں، اب جبکہ پاکستان میں اردو ہمارے گھر کی لونڈی ہے اسی لئے ہم اسے اپنے مالکان حقوق سے برت رہے ہیں، مغربی کلچر کی اندھا دھند تقلید نے جس طرح ہمیں ہماری تہذیب و ثقافت سے بے بہرہ اور دور کر دیا ہے۔ بالکل اسی طرح اپنی قومی زبان سے بھی۔کیونکہ انگریزوں کی زبان کے لا تعداد ایسے الفاظ ہیں جو اب ہماری قومی زبان کا حصہ سمجھے جاتے ہیں۔ مثلاً ڈرائیور، کپ، جگ ، ٹرین ، کوٹ پینٹ ، کنڈ یکٹر اسٹیشن، روڈ ، کار، ائیر پورٹ ، ٹائی وغیرہ وغیرہ ۔جبکہ ہمارے گھروں اور ہماری زبانوں سے بھی لفظ دلان رخصت ہوا، اور اسکی جگہ ٹی وی لائونچ نے لے لی، پھر اسی طرح غصل خانے واش روم یا باتھ روم میں تبدیل ہوئے تو باورچی خانے کچن میں اور چھتیں ٹیرس میں بدل گئیں۔ لیکن اسکے علاوہ بھی کچھ الفاظ ایسے بھی ہیں جن سے ایک کم پڑھا لکھا اور ان پڑھ شخص جو اپنی قومی زبان سے واقف ہو نہ ہو مگر ان الفاظ کی ادائیگی بخوبی کرے گا۔ مثلاً سوری، پرابلم تھینک یو، نروس، ڈیپرشن، ٹینشن ، ایکسکیوزمی وغیرہ وغیرہ شامل ہیں۔ گویا انگریزی زبان اور اسکا کلچر تیزی سے ہم پر اثر انداز ہو رہا ہے۔ تعلیمی اور قومی سطح پر بھی قومی زبان کا کوئی پر سان حال نہیں۔ نصف صدی سے زیادہ کا عرصہ بیت چکا مگر ابھی تک اسی شش و پنج میں ہیں کہ ہمارا ذریعہ تعلیم کیا ہونا چاہیے ؟ کیونکہ قیام کے ابتدائی دنوں میں نوکر شاہی نے وزارت تعلیم کے ایک اجلاس میں انگریزی کو عوام کے لئے تو ممنوع قرار دے دیا مگر بالائی طبقے کے لئے کوئی ممانعت نہ تھی اور یہی تضاد آج تک موجود ہے کہ سرکاری سکول جنہیں اردو میڈیم بھی کہا جاتا ہے۔ کالج اور یونیورسٹی تک پہنچنے والے طالب علم اپنی قابلیت اور محنت کے بل بوتے پر انگریزی سیکھ تو لیتے ہیں مگر حصول ملازمت میں ہمیشہ ناکام رہتے ہیں۔ انہیں نہ صرف اردو میڈیم کا طعنہ دیا جاتا ہے بلکہ ہائی سوسائٹی میں مڈل کلاس بھی کہا جاتاہے، اسی لئے اب دن بدن انگریزی کے بڑھتے رحجان کی وجہ سے والدین اپنے بچوںکو انگریزی سکولوںمیں پڑھانے کے خواہشمند ہیں۔ قومی زبان کی اسی نا قدری، تقسیم اور تفریق وتضاد سے وطن عزیز میں یہ صورت حال پیدا ہو گئی کہ ایک عام فرد کو اردو میڈیم میں تعلیم دی جا رہی جبکہ دفتری زبان انگریزی ہے اور سرکاری سطح پر یہ چاہت بھی کہ اگر کوئی اردو میڈیم نوکری کے لئے درخواست دے تو نہ صرف درخواست انگریزی زبان میں ہو بلکہ انٹر ویو بھی اسی زبان میں دے۔
قومی زبان کی اس نا قدری پر افسوس بھی ہوتاہے اور ملامت بھی کہ شاید ہی پاکستان کے سوا کسی ایسی قوم کی مثال ہو۔ جسکا ایک بڑا طبقہ اپنی قومی زبان پر شرمائے اور اسے حقارت کی نظر سے دیکھے۔ اسی زبان کے حوالے اب اگر میڈیاکو لے کر بات کی جائے تو الیکٹرانک میڈیا شاباش کا مستحق ہے۔ جنہوں نے اسے بگاڑنے کا تہیہ کر رکھا ہے۔ نئے و پرانے دونوں چینلز پر ملی جلی زبانوں میں میزبانوںکو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ جو قومی زبان کے نہایت عام اور معروف الفاظ کو صحیح تلفظ کے ساتھ ادا نہیںکر سکتے اور وہ زوایے بدل بدل کرانگریزی بولنے کی کوشش میں یہ بھول جاتے ہیں کہ انہیں Viewers بولنا سے یا weavers۔اگر واقعی ہمیں اردو کو بھولی بسری اور مردہ زبان کی بجائے زندہ زبان بنانا اور اپنی آئندہ نسلوں تک محفوظ رکھنا ہے تو ہمارے حکمرانوںکو چاہیے کہ وہ اسے رابطے کی زبان نہ بنائیں جسے وہ صرف عوامی خطاب کے لئے استعمال کرتے ہیں اور جھوٹے وعدوں سے بہلاتے رہتے ہیں۔ بلکہ چین چاپان، جرمنی اور فرانس جیسے ترقی یافتہ ممالک کی طرح اپنے تعلیمی اداروں میں بھی ابتدائی سطح سے لے کر اعلیٰ ترین سطح تک اپنی زبان پر انحصار کرنا ہوگا۔ اور اس سچائی کو بھی اب تسلیم کرنا ہوگا کہ زبان اور قوم ایک ہی سکے کے 2رخ ہیں اور جہاں زبان نہیں رہتی وہا ں کی قوم بھی تتر بتر ہو جاتی ہے۔